وزارت داخلہ نے تمام متعلقہ اداروں کو شہریوں کی بائیومیٹرک معلومات کے علیحدہ علیحدہ ریکارڈ رکھنے سے روکتے ہوئے ایک متحدہ چہرہ شناسائی نظام یعنی فیشل ریکگنیشن سسٹم نافذ کرنے کی ہدایت جاری کی ہے، جسے 31 دسمبر 2025 تک مکمل طور پر نافذ کر دیا جائے گا۔
یہ فیصلہ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کی زیر صدارت نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے ہیڈکوارٹر اسلام آباد میں منعقدہ ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں کیا گیا، جس میں نادرا کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل محمد منیر افسر سمیت دیگر اعلیٰ حکام شریک ہوئے۔
اجلاس میں سیکیورٹی اور ڈیٹا مینجمنٹ سے متعلق اہم چیلنجز کا جائزہ لیا گیا۔ چیئرمین نادرا نے اجلاس میں اظہارِ تشویش کرتے ہوئے کہا کہ کئی سرکاری ادارے اور سروس فراہم کرنے والے شہریوں کے بائیومیٹرک ڈیٹا کے علیحدہ مقامی ریکارڈ رکھ رہے ہیں، جس سے حساس معلومات کے چوری یا غلط استعمال ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: نادرا ریکارڈ میں پیدائش و اموات کا اندراج اب آن لائن کروانے کی سہولت
اس مسئلے کے حل کے لیے انہوں نے نادرا کے محفوظ اور تصدیق شدہ مرکزی ڈیٹا بیس پر انحصار کرنے اور چہرہ شناسائی نظام کو ترجیح دینے پر زور دیا، خاص طور پر ان افراد کی سہولت کے لیے جنہیں فنگر پرنٹ کی تصدیق میں دشواری ہوتی ہے۔
وزیر داخلہ نے ایک اہم پالیسی فیصلے کے تحت فوری طور پر ان تمام موبائل سمز کو بند کرنے کا حکم دے دیا ہے جو زائد المیعاد شناختی کارڈز پر جاری کی گئی ہیں۔ ابتدائی طور پر یہ عمل ان شناختی کارڈز پر جاری کی گئی سمز سے شروع کیا جائے گا جو 2017 یا اس سے پہلے جاری ہوئے تھے، بعد ازاں تمام غیر فعال شناختی کارڈز کو بھی اس دائرے میں لایا جائے گا، تاکہ صرف فعال شناختی کارڈز پر موبائل کنکشن حاصل کیے جا سکیں۔
نادرا پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے تعاون سے ان سمز کی بندش پر کام کر رہا ہے جو مرحوم افراد یا زائد المیعاد شناختی کارڈ رکھنے والوں کے نام پر رجسٹرڈ ہیں۔
مزید پڑھیں: نادرا نے پوسٹ آفیسز میں شناختی کارڈ سروس کیوں بند کی؟
وزیر داخلہ نے اسلام آباد کے آئی8 سیکٹر میں 10 منزلہ نادرا میگا سینٹر کا سنگ بنیاد بھی رکھا، جو جون 2026 تک مکمل ہونے کی توقع ہے۔ انہوں نے نادرا کی خدمات کو ملک بھر کے 44 کم سہولت یافتہ تحصیلوں اور یونین کونسلز تک وسعت دینے کی منظوری دی۔
جن میں اسلام آباد کی تمام 31 یونین کونسلز شامل ہیں، جنہیں 30 جون 2025 تک سہولت فراہم کر دی جائے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ ملتان، سکھر اور گوادر میں ریجنل نادرا دفاتر کے قیام کا بھی اعلان کیا گیا۔
تفصیلی بریفنگ میں نادرا حکام نے ادارے میں کی گئی اصلاحات، ڈیجیٹل تبدیلی اور عوامی خدمات کی بہتری سے متعلق اپ ڈیٹس فراہم کیں، قومی شناختی کارڈ قوانین 2002 میں حالیہ ترامیم، بچوں اور خاندانوں کے لیے نئے رجسٹریشن سرٹیفکیٹس کی شمولیت بھی زیر بحث آئی، جس کا مقصد قانونی وضاحت اور دھوکہ دہی کی روک تھام ہے۔
مزید پڑھیں:نادرا 70 لاکھ شہریوں کے شناختی کارڈز کیوں منسوخ کرنا چاہتا ہے؟
نادرا نے جدید بائیومیٹرک نظام متعارف کروا دیے ہیں، جن میں چہرہ شناسائی اور آنکھ کی پتلی کی شناخت شامل ہے، شناختی فراڈ اور بائیومیٹرک تضادات سے بچاؤ کے لیے نادرا کا ایف آئی اے، اسٹیٹ بینک، ایس ای سی پی اور دیگر اداروں سے اشتراک جاری ہے۔
نادرا کی موبائل ایپ پاک آئی ڈی جسے 70 لاکھ سے زائد مرتبہ ڈاؤن لوڈ کیا جا چکا ہے، اب ڈیجیٹل شناختی کارڈ کے اجرا، پینشنرز کی ’ثبوتِ حیات‘ تصدیق، اور اسلحہ لائسنس کی تجدید جیسی سہولیات بھی فراہم کر رہی ہے۔