امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ پاکستان کا ایک اعلیٰ سطحی وفد آئندہ ہفتے امریکا کا دورہ کرے گا تاکہ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات کو مضبوط بنانے اور حالیہ امریکی ٹیرف پر بات چیت کی جا سکے۔
یہ بھی پڑھیں:ٹرمپ ٹیرف برقرار، امریکی اپیلز کورٹ نے عارضی طور پر معطلی کا فیصلہ مؤخر کردیا
پاکستان کو امریکی برآمدات پر ممکنہ طور پر 29 فیصد ٹیرف کا سامنا ہے، جو کہ 3 ارب ڈالر کے تجارتی سرپلس کے باعث عائد کیا گیا ہے۔ یہ ٹیرف واشنگٹن کی جانب سے دنیا بھر کے کئی ممالک پر گزشتہ ماہ نافذ کیے گئے تھے، تاہم مذاکرات کے لیے انہیں 90 دن کے لیے معطل کر دیا گیا ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف کی ہدایت پر پاکستان نے اپریل میں فیصلہ کیا تھا کہ ایک اعلیٰ سطحی وفد امریکہ بھیجا جائے گا تاکہ تجارتی تعلقات کو بہتر بنایا جا سکے اور امریکی ٹیرف سے متعلق خدشات پر بات چیت کی جا سکے۔
یہ وفد سرکاری اور نجی شعبے کے اہم شخصیات پر مشتمل ہوگا، جن میں نمایاں کاروباری شخصیات اور برآمد کنندگان شامل ہوں گے۔
دوبارہ جنگ ہوئی تو کیا ہوگا؟
صدر ٹرمپ نے مزید کہا کہ اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ ہوتی ہے تو وہ دونوں ممالک کے ساتھ کسی معاہدے میں دلچسپی نہیں رکھیں گے۔
یہ بھی پڑھیں:ہم غزہ کی تمام تر صورت حال سے نمٹ رہے ہیں، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ
انہوں نے حالیہ دنوں میں دونوں جوہری طاقتوں کے درمیان شدید فوجی جھڑپوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایسی صورتحال تجارتی مذاکرات کو متاثر کر سکتی ہے۔
صفر ٹیرف پر مبنی دو طرفہ تجارتی معاہدہ
پاکستان نے امریکا کو تجویز دی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان منتخب شعبوں میں صفر ٹیرف پر مبنی دو طرفہ تجارتی معاہدہ کیا جائے تاکہ باہمی مفادات کے تحت تجارت کو فروغ دیا جا سکے۔
پاکستانی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب اور امریکی تجارتی نمائندے جیمیسن گریئر کے درمیان 30 مئی کو ٹیلیفونک گفتگو ہوئی، جس میں فریقین نے تکنیکی سطح پر تفصیلی مذاکرات پر اتفاق کیا۔
امریکی سرمایہ کاروں کے لیے مراعات
تجارت کے وزیر جام کمال نے انٹرنیشنل میڈیا کو بتایا کہ پاکستان امریکی کمپنیوں کو بلوچستان میں معدنیات کے شعبے میں سرمایہ کاری کے لیے مراعات دینے کا ارادہ رکھتا ہے، جس میں لیز گرانٹس اور دیگر سہولیات شامل ہوں گی۔ اس کے علاوہ، پاکستان امریکا سے کپاس اور خوردنی تیل کی درآمدات بڑھانے کا بھی خواہاں ہے۔
’بڑے معاہدوں‘ پر کام
صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ پاکستان اور بھارت دونوں کے ساتھ، خاص طور پر اس ماہ کے اوائل میں دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی میں امریکا کے کردار کے بعد ’بڑے معاہدوں‘ پر کام کر رہے ہیں۔
یہ پیشرفت اس وقت سامنے آئی ہے جب امریکا اور بھارت کے درمیان بھی تجارتی معاہدے پر بات چیت جاری ہے، جس میں بھارت امریکی کمپنیوں کو 50 ارب ڈالر سے زائد کے سرکاری ٹھیکوں میں بولی لگانے کی اجازت دینے پر غور کر رہا ہے۔