اپر چترال میں بونی-بوزند روڈ کی تعمیر میں غیرمعمولی تاخیر اور مبینہ کرپشن کے خلاف احتجاج کرنے والے 8 مظاہرین کو پولیس نے کارِ سرکار میں مداخلت اور حکام پر مبینہ حملے کی کوشش کا الزام لگا کر گرفتار جبکہ دیگر کو مقدمے میں نامزد کردیا ہے۔
یہ پرامن احتجاج 23 مارچ کو تورکھو-تریچ روڈ فورم (ٹی ٹی آر ایف) نامی مقامی تنظیم کی قیادت میں ہوا تھا جس کی قیادت ایک نوجوان سماجی کارکن عمیر خلیل اور ان کے ساتھی کررہے تھے۔
یہ بھی پڑھیے: 16 سال، ایک ارب 16 کروڑ خرچ: 28 کلومیٹر سڑک نہ بننے پر عوام کا دھرنا
واضح رہے کہ اپر چترال کے ہیڈکوارٹر بونی سے وادی تورکھو کے لیے 28 کلومیٹر پکی سڑک کی منظوری اور کام آغاز 16 سال پہلے ہوا تھا تاہم ابتدائی لاگت 36 کروڑ روپے سے بڑھ کر ایک ارب روپے سے تجاوز کرنے کے باوجود منصوبہ تاحال نامکمل ہے۔
مقامی عمائدین کے مطابق اب تک صرف 7 کلومیٹر سڑک پر کچھ کام ہوسکا ہے جبکہ اس منصوبے پر 1 ارب 22 کروڑ روپے خرچ کیے جا چکے ہیں۔ اس دوران کنسٹرکشن اینڈ ورکس ڈیپارٹمنٹ (سی اینڈ ڈبلیو) پر ٹھیکہ دار کو مبینہ طور پر غیرقانونی پیشگی ادائیگیوں کے الزامات بھی لگتے رہے۔
وادی تورکھو کو باقی علاقوں سے ملانے والی اس واحد سڑک پر کام میں غیرمعمولی تاخیر، کرپشن اور ٹھیکہ دار کو غیرقانونی پیشگی ادائیگیوں کے خلاف گزشتہ روز علاقے کے عوام نے بڑی تعداد مین احتجاج کرتے ہوئے بونی کا رُخ کیا اور بونی-مستوج سڑک بند کردی۔
احتجاج کے بعد پولیس نے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر اپر چترال کی مدعیت میں 16 ایم پی او کے تحت مقدمہ درج کرتے ہوئے مظاہرین کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز کردیا جس کے بعد نامزد ملزمان میں سے 8 افراد نے رضاکارانہ طور پر گرفتاری دے دی جنہیں بعدازاں، مقامی عدالت کے سامنے پیش کرنے کے بعد جیل بھیج دیا گیا۔
احتجاج کے بعد ضلعی انتظامیہ نے اپر چترال میں دفعہ 144 کے نفاذ کے ذریعے عوامی اجتماعات پر پابندی بھی عائد کردی ہے۔

ایف آئی آر میں مظاہرین پر سرکاری اداروں کو زور زبردستی بند کرنے، مواصلات کے نظام میں خلل ڈالنے، حکام کے ساتھ گالم گلوچ اور ان پر مبینہ حملے کی کوشش کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
تاہم ٹی ٹی آر ایف کے قائدین ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔
چترال کے معروف سماجی کارکن اور مقدمے میں نامزد نوجوان پیر مختار نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چترال میں سڑکوں کی حالت ابتر ہے اور حکومت شہریوں کو بنیادی حقوق دینے میں ناکام ہوچکی ہے۔
یہ بھی پڑھیے: چترال: المناک ٹریفک حادثے میں ایک ہی خاندان کے 8 افراد جاں بحق
انہوں نے کہا کہ مظاہرین کے خلاف اس کارروائی کا مقصد چترال میں بنیادی شہری حقوق کے لیے اٹھنے والی آوازوں کی حوصلہ شکنی اور ان کو دبانا ہے۔
چترال کی تمام سیاسی جماعتوں اورسماجی حلقوں نے ان گرفتاریوں کی مذمت کرتے ہوئے زیر حراست شہریوں کی رہائی، منصوبے میں بے ضابطگیوں کی تحقیقات اور چترال میں سڑکوں کی حالتِ زار میں بہتری لانے کا مطالبہ کیا ہے۔