سابق امریکی صدر جو بائیڈن روس کو تباہ کرنا چاہتے تھے، برازیلی صدر کا انکشاف

بدھ 4 جون 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

برازیل کے صدر لوئیز ایناسیو لولا دا سلوا نے انکشاف کیا ہے کہ سابق امریکی صدر جو بائیڈن اپنی مدتِ صدارت میں روس کو ’تباہ‘ کرنا چاہتے تھے۔

فرانسیسی اخبار کو دیے گئے ایک انٹرویو میں روس اور یوکرین کے درمیان امن معاہدے کے لیے مسلسل کوشاں برازیلی صدر نے اس بات پر اعتراض کیا کہ مغربی ممالک روس کو اس تنازعے کا واحد ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں، ان کے مطابق مغربی ممالک بھی اس جنگ کے کچھ نہ کچھ ذمہ دار ہیں۔

برازیلی صدر لولا دا سلوا نے جو بائیڈن سے اپنی طویل گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ سمجھتے تھے کہ روس کو تباہ ہونا چاہیے، انہوں نے یہ وضاحت نہیں کی کہ سابق امریکی صدر سے ان کی مذکورہ گفتگو کب ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں: یوکرین کا روس کے ایئربیس پر حملہ، 40 سے زیادہ بمبار طیارے تباہ کرنے کا دعویٰ

’اور یورپ، جو طویل عرصے تک دنیا میں ایک درمیانی راہ کا نمائندہ تھا، اب واشنگٹن کے ساتھ صف بستہ ہے اور اربوں ڈالر دوبارہ اسلحہ سازی پر خرچ کر رہا ہے، یہ بات مجھے تشویش میں مبتلا کرتی ہے، اگر ہم صرف جنگ کی بات کرتے رہیں گے، تو کبھی امن قائم نہیں ہو سکے گا۔‘

روس پہلے ہی یوکرین کی جنگ کو مغربی طاقتوں کی طرف سے روس کے خلاف ایک پراکسی جنگ قرار دے چکا ہے اور یوکرین کو اسلحہ کی فراہمی امن کی راہ میں رکاوٹ سمجھتا ہے۔

حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خصوصی ایلچی کیتھ کیلاؤگ نے تسلیم کیا کہ ولادیمیر پیوٹن ’ایک حد تک‘ درست ہیں، جبکہ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے بھی اس تنازعے کو نیوکلیئر طاقتوں کے درمیان ایک پراکسی جنگ قرار دیا۔

مزید پڑھیں: روس اور یوکرین کے درمیان مذاکرات کا دوسرا دور، قیدیوں کے تبادلے اور لاشوں کی حوالگی پر اتفاق

مارکو روبیو نے مارچ میں کہا تھا کہ صاف بات یہ ہے کہ یہ ایک پراکسی جنگ ہے، امریکا یوکرین کی مدد کر رہا ہے اور دوسری طرف روس ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بارہا اپنے سیاسی حریف جو بائیڈن پر تنقید کر چکے ہیں کہ وہ یوکرین کو امریکی عوام کے ٹیکس کا  پیسہ فراہم کررہے ہیں، انہوں نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ یہ جنگ ’یورپی مسئلہ‘ ہی رہنا چاہیے تھا۔

صدر ٹرمپ نے کئی ریلیوں میں دعویٰ کیا کہ صرف وہی تیسری عالمی جنگ کو روک سکتے ہیں اور روس-یوکرین تنازع کو 24 گھنٹے میں ختم کر سکتے ہیں، بعد میں انہوں نے خود اعتراف کیا کہ یہ دعویٰ مبالغہ آرائی پر مبنی تھا۔

مزید پڑھیں: روس یوکرین امن کوشش: ٹرمپ روسی صدر پیوٹن سے جلد ملنے کے خواہاں

صدر ٹرمپ کے دباؤ کے بعد گزشتہ ماہ یوکرین نے 2022 میں ترک کیے گئے روس کے ساتھ براہِ راست مذاکرات پر رضامندی ظاہر کی تھی جس کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان استنبول میں بات چیت کے 2 دور ہو چکے ہیں۔

پہلی ملاقات 16 مئی کو صدر پیوٹن کی پیشکش پر ہوئی، جس کے نتیجے میں قیدیوں کا تبادلہ عمل میں آیا، دوسری ملاقات گزشتہ پیر کو ہوئی، جس میں دونوں فریقین نے ایک ابتدائی امن روڈ میپ کے مسودے کا تبادلہ کیا۔

ترکیہ میں واشنگٹن کے اعلیٰ سفارتکار نے منگل کو بتایا تھا کہ صدر ٹرمپ اب اپنے صبر کی انتہا پر پہنچ چکے ہیں اور یوکرین تنازع سے بیزار نظر آ رہے ہیں۔

ادھر کریملن کے ترجمان دیمتری پیسکوف نے خبردار کیا کہ روس اور یوکرین کے درمیان امن مذاکرات سے فوری نتائج کی توقع رکھنا غلط ہو گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp