امریکا کے شہر فلوریڈا میں اپنے خاندان کے ہمراہ تعطیلات گزارنے والی مشی گن کی رہائشی ایک لڑکی کو ایک بوتل میں ایک پیغام ملا جسے 8 سال قبل ہوائی میں مبینہ طور پر سمندر میں پھینک دیا گیا تھا۔
فلوریڈا کے انا ماریا جزیرے پر تفریح کرتی 11 سالہ جوزی لا نے جب اس نے بوتل کو سمندر کی لہروں کے ساتھ ساحل سے ٹکراتے دیکھا۔
یہ بھی پڑھیں: بوتل کو لفافہ، سمندر کو پوسٹ بکس بنانے والے حساس افراد کے خوبصورت پیغامات
جوزی لا نے میڈیا کو بتایا کہ وہ ساحل پر چہل قدمی کررہی تھی اور لہریں اٹھتے ہوئے ساحل پر سر پٹخ رہی تھیں، لہریں ایک دوسرے سے ٹکراتے ہوئے ساحل پر مڈہم ہوکر لوٹ جاتی تھیں۔ ’یکدم میں نے بوتل کو لہروں پر سرف کرتے دیکھا اور اسے بہت تیزی سے پکڑ لیا اور اپنی ماں کو دکھایا۔‘
میڈیا رپورتس کے مطابق بوتل میں ایک چھوٹا سا نوٹ تھا، جس میں لکھا تھا: “ہیلو، جن لوگوں کو یہ ملی ہے، آپ خوش ہوں گے کہ آپ نے یہ پایا، کیوں؟ کیونکہ آپ میرے بارے میں اس نمبر کے ذریعے جان سکتے ہیں۔”
جوزی لا کی ماں پیرس ہوزنگٹن نے بوتل میں ملنے والے اس نوٹ میں درج فون نمبر پر ایک ٹیکسٹ پیغام بھیجا اور انہیں جلد ہی ایک 21 سالہ ہوائی خاتون کی طرف سے جواب موصول ہوا، جس میں انہوں نے بتایا کہ اس نے اور اس کے بھائی نے 8 سال قبل جزیرہ او واہو کے قریب سمندر میں بوتل پھینکی تھی۔
’میں نے کہا کہ تم مذاق کر رہی ہو، اس نے بتایا کہ انہوں نے یہ اس وقت کیا جب وہ 13 اور 8 سال کے تھے، یہ ایک طرح کی تفریح تھی جس کا انہوں نے مزہ لیا،کیونکہ انہیں 2018 میں اپنا پیغام بوتل میں بند کرنے سے قبل اسی طرح کا ایک بوتل بند پیغام مل چکا تھا۔‘
مزید پڑھیں: ’بوتل بند پیغام‘ بھیجنے والے کی تلاش کیوں شروع کر دی گئی؟
پیرس ہوزنگٹن کے مطابق ہوائی کی رہائشی اس خاتون نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کا کہا ہے، تاہم انہیں یہ جان کر بہت مزہ آیا کہ ان کی بوتل کا سفر فلوریڈا میں جوزی لا کے ہاتھ لگنے کے بعد پوری طرح اختتام پذیر ہوگیا ہے، جس کی انہیں توقع نہیں تھی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق چیف میٹرولوجسٹ بوبی ڈیسکنز کا کہنا تھا کہ اگرچہ ایسا نہیں لگتا ہے کہ مذکورہ بوتل ہوائی سے فلوریڈا تک پوری طرح تیرتی رہی ہوگی لیکن ایسا تکنیکی طور پر ممکن ہے۔
جوزی لا کی ماں پیرس ہوزنگٹن کا کہنا تھا کہ بوتل کے اس سفر کے بارے میں ہر ایک کے اپنے نظریات ہوسکتے ہیں۔ ’لیکن یہ صرف فطرت ہی ہے جسے شمار کیا جاسکتا ہے کیونکہ اس کے بغیر مجھے نہیں لگتا کہ اس نے اتنا سفر طے کیا ہوتا۔‘