وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس اس وقت کشیدگی کا شکار ہو گئی جب صحافیوں نے احتجاجاً واک آؤٹ کر دیا۔
صحافیوں کا موقف تھا کہ ایف بی آر کی جانب سے بجٹ پیشی سے قبل یا اس کے فوراً بعد تکنیکی بریفنگ نہ دیے جانے سے ٹیکسوں اور دیگر اہم مالیاتی امور رپورٹ کرنے میں شدید دشواری پیش آئی۔ انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ ایسی بریفنگز صحافیوں کو بجٹ کی تفہیم اور عوام تک درست معلومات پہنچانے کے لیے ناگزیر ہوتی ہیں۔
پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں نے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بجٹ میں عائد کیے گئے ٹیکسز سے متعلق اہم تفصیلات سامنے لانے سے گریز کیا جا رہا ہے۔ صحافیوں کے مطابق حکومت کی جانب سے معلومات کے اس فقدان سے شفافیت متاثر ہو رہی ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ کے پنشن، انرجی اور ٹیرف ریفارمز پر اہم اعلانات
مزید پڑھیں: تنخواہ دار طبقے کے لیے خوشخبری: وفاقی بجٹ 26-2025 میں انکم ٹیکس کی شرح کم کر دی گئی
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ گزشتہ روز قومی اسمبلی میں بجٹ 2025-26 پیش کیا گیا، جس میں اہم شعبوں پر تفصیلی بات کی گئی۔ انرجی ریفارمز اور پنشن سسٹم کی بہتری پر بھرپور توجہ دی گئی ہے، جب کہ ٹیکس ریفارمز کے حوالے سے چیئرمین ایف بی آر تفصیلی بریفنگ دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ٹیرف اصلاحات نہایت اہمیت کی حامل ہیں، اور یہ اقدامات ملکی معیشت کی سمت درست کرنے کی کوشش کا حصہ ہیں۔ وزیر خزانہ نے اعلان کیا کہ 4 ہزار سے زائد ٹیرف لائنز پر کسٹم ڈیوٹی ختم کر دی گئی ہے تاکہ برآمدات پر مبنی معیشت کو فروغ دیا جا سکے۔
محمد اورنگزیب کا کہنا تھا کہ اس نوعیت کی اصلاحات گزشتہ 30 برسوں میں پہلی بار کی گئی ہیں، جن کا مقصد صنعتی پیداوار اور عالمی مسابقت میں بہتری لانا ہے۔
مزید پڑھیں: بجٹ 26-2025: نان فائلر کو پراپرٹی لینے میں کتنی سہولت ملے ہوگی؟
معاشی اصلاحات سے ترقی کی راہ ہموار ہوگی، تنخواہ دار طبقے کو ممکنہ ریلیف دیا
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ معاشی اصلاحات لا کر ملک کو اقتصادی طور پر آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کو ممکنہ حد تک ریلیف فراہم کیا ہے۔
پریس کانفرنس میں گفتگو کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے بتایا کہ سپر ٹیکس میں کمی کا آغاز کر دیا گیا ہے، جبکہ چھوٹے کسانوں کو آسان شرائط پر قرضے فراہم کیے جائیں گے تاکہ زرعی شعبہ مستحکم ہو۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ کنسٹرکشن سیکٹر پر کافی بات ہو رہی ہے اور کوشش ہے کہ اس شعبے میں ٹرانزیکشن کاسٹ کم کی جائے تاکہ اس کی ترقی کو فروغ دیا جا سکے۔
زراعت سے متعلق بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ رواں سال کھاد اور پیسٹی سائیڈز پر ٹیکس عائد کرنے کی تجویز تھی، تاہم وزیراعظم کی ہدایت پر ان اشیاء پر ٹیکس نہ لگانے کا فیصلہ کیا گیا تاکہ کسانوں پر بوجھ نہ پڑے۔ وزیر خزانہ نے زور دیا کہ معاشی بحالی کے لیے مربوط اصلاحات ناگزیر ہیں اور حکومت اس سمت میں عملی اقدامات کر رہی ہے۔
مزید پڑھیں: بجٹ 26-2025: کس شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد زیادہ مستفید ہوں گے؟
اضافی ٹیکس مجبوری میں لگائے، ریلیف مالی گنجائش کے مطابق دیا، وزیر خزانہ
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ موجودہ مالی صورتحال کے باعث اضافی ٹیکسز لگانا مجبوری بن چکا ہے، تاہم حکومت نے پنشن میں مہنگائی کے تناسب سے بہتری کی کوشش کی ہے اور ریلیف صرف مالی گنجائش کے مطابق دیا جا سکتا ہے۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ تنخواہ دار طبقے میں زیادہ آمدن والوں پر بھاری ٹیکس سلیب نافذ کی گئی ہے، جبکہ 2 ہزار 700 ٹیرف لائنز میں کسٹم ڈیوٹی کم کر دی گئی ہے۔ گزشتہ سال بھی اضافی ٹیکسز کی شکایات تھیں، مگر اس کی بڑی وجہ انفورسمنٹ کا فقدان تھا۔ بین الاقوامی ادارے ماننے کو تیار نہیں تھے کہ پاکستان میں قوانین کا نفاذ ممکن ہے، کیونکہ ہم قوانین ہونے کے باوجود ان پر عمل درآمد نہیں کرا پا رہے تھے، لیکن رواں سال عملی انفورسمنٹ کی ہے۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ رواں سال ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح 10.3 فیصد تک پہنچ جائے گی جبکہ آئندہ سال اسے 10.9 فیصد تک لے جانے کا ہدف ہے۔ رواں مالی سال 2.2 ٹریلین روپے کی ٹیکس وصولی میں سے 312 ارب روپے اضافی ٹیکسز کی مد میں ہوں گے۔
مزید پڑھیں: بجٹ 26-2025، نان فائلرز کی زندگی مزید تنگ کرنے کا فیصلہ
ان کا کہنا تھا کہ دونوں ایوانوں میں قانون سازی کے عمل کو آگے بڑھایا جائے گا تاکہ ایڈیشنل ٹیکسز کی ضرورت نہ پڑے۔ اگر قانون سازی ہو جائے تو سسٹم میں موجود لیکیجز کو روکا جا سکتا ہے، اور یہی راستہ ہے کہ یا تو ہم مؤثر انفورسمنٹ کریں یا اضافی ٹیکس لگانے پر مجبور ہوں۔
انہوں نے اپیل کی کہ پارلیمان قانون سازی میں حکومت کا ساتھ دے تاکہ عوام پر بوجھ کم کیا جا سکے اور پائیدار معیشت کی بنیاد رکھی جا سکے۔
2016 میں کابینہ کے وزرا کی تنخواہ بڑھائی گئی تھی
صحافیوں کی جانب سے وزراء اور پارلیمنٹیرینز کی تنخواہوں میں ہُوشربا اضافے کے سوال پر وزیر خزانہ نے کہا کہ یہ ضرور دیکھ لیں کہ وزراء اور پارلیمنٹیرینز کی سیلری کو کب ایڈجسٹ کیا گیا تھا، 2016 میں کابینہ کے وزراء کی تنخواہ بڑھائی گئی تھی، ہر سال پارلیمنٹرینز کی تنخواہوں میں 5 یا ساڑھے 5 فیصد اضافہ ہونا چاہیئے اگر ہر سال تنخواہ بڑھتی رہتی تو ایک دم بڑھنے والی بات نہ ہوتی۔
وفاقی حکومت قرض لے کر ریلیف دے رہی ہے، اخراجات میں کمی ناگزیر ہے، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب
وزیر خزانہ نے واضح کیا ہے کہ وفاقی حکومت محدود مالی گنجائش کے تحت قرض لے کر عوام کو ریلیف فراہم کر رہی ہے، تاہم اس بات کا ادراک ضروری ہے کہ پاؤں اتنے ہی پھیلانے چاہییں جتنی چادر ہے۔
مزید پڑھیں: بجٹ 26-2025، ’اب پاکستان میں رہنا زیادہ مشکل اور باہر جانا مزید مہنگا ہوگیا‘
ان کا کہنا تھا کہ پنشن اور تنخواہوں کے تعین کے لیے ایک بینچ مارک ہونا چاہیے، کیونکہ دنیا بھر میں یہ مہنگائی کی شرح سے منسلک ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مہنگائی کی رفتار نیچے آئی ہے، اسی تناسب سے تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ کیا گیا ہے۔
وزیراعظم نے اعلان کیا ہے کہ اگست میں نیا این ایف سی ایوارڈ طلب کیا جائے گا
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ہر مالی فیصلہ صوبوں کی مشاورت سے کیا جا رہا ہے، اور وزیراعظم نے اعلان کیا ہے کہ اگست میں نیا این ایف سی ایوارڈ طلب کیا جائے گا تاکہ وسائل کی تقسیم پر شفاف اور مشترکہ پالیسی بنائی جا سکے۔
محمد اورنگزیب نے تسلیم کیا کہ یہ بات درست ہے کہ ٹیکس بڑھانے کے بجائے حکومتی اخراجات کم ہونے چاہئیں۔ ان کے بقول رواں سال وفاقی حکومت کے اخراجات میں صرف دو فیصد اضافہ ہوا ہے، جو کفایت شعاری کی پالیسی کا عکاس ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ پنشن سسٹم کو اب سی بی آئی (Contributory Based Index) سے منسلک کر دیا گیا ہے تاکہ یہ زیادہ پائیدار اور قابل عمل بن سکے۔ انہوں نے اس امر پر بھی روشنی ڈالی کہ پاکستان میں 9.4 ٹریلین روپے کیش اکانومی موجود ہے جسے اب ڈاکیومنٹڈ معیشت کی جانب لانے کی ضرورت ہے۔
بنیادی سوال یہ ہے کہ آخر سرکاری اخراجات کم کیوں نہیں ہو رہے؟
مزید پڑھیں: بجٹ 26-2025، اب آپ کی تنخواہ پر کتنا ٹیکس کٹے گا؟ جانیے وی کیلکولیٹر سے
ان کا کہنا تھا کہ ریونیو، اسٹرکچرل اور گورننس اصلاحات کے تینوں نکات پر ہم نے عملی اقدامات اٹھائے ہیں اور دستخط بھی کیے ہیں۔ کچھ حکومتی اخراجات میں اضافہ ضروری تھا، مگر اس کے باوجود بنیادی سوال یہ ہے کہ آخر سرکاری اخراجات کم کیوں نہیں ہو رہے؟ اس حوالے سے کئی تجاویز زیر غور ہیں جن پر کام جاری ہے۔
محمد اورنگزیب کا کہنا تھا کہ معاشی استحکام کے لیے صرف ٹیکس کا بوجھ بڑھانا کافی نہیں بلکہ حکومتی ڈھانچے میں شفافیت، اصلاحات اور وسائل کے مؤثر استعمال کی ضرورت ہے۔
چیزیں آہستہ آہستہ بہتر ہو رہی ہیں، لیکن قرض سے معیشت نہیں چلائی جا سکتی
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ گزشتہ 10 سے 11 سال کے دوران شاید ہی کوئی ایسی چیز دیکھی ہو جو مہنگی ہونے کے بعد واپس سستی ہوئی ہو، لیکن اب کچھ اشیا کی قیمتوں میں کمی آنا شروع ہو گئی ہے، جو معاشی بہتری کی جانب ایک مثبت اشارہ ہے۔ اب حالات بدل رہے ہیں۔ آہستہ آہستہ چیزیں بہتر ہو رہی ہیں۔
مزید پڑھیں:بجٹ میں کھانے پینے کی کون سی اشیا سستی کی جا رہی ہیں؟
محمد اورنگزیب نے کہا کہ نچلی سلیب میں جو بھی ٹیکس اضافہ ہوا تھا، اس میں کمی کی کوشش کی گئی ہے تاکہ کم آمدنی والے طبقے کو زیادہ دباؤ کا سامنا نہ ہو۔ انہوں نے مزید کہا کہ جن سیکٹرز پر اضافی بوجھ پڑا ہے، ان کے لیے حکومت سنجیدہ اقدامات کر رہی ہے۔
وزیر خزانہ نے ایک بار پھر اس مؤقف کو دہرایا کہ اگر قرض لے کر ہی ہر کام کرنا ہے تو پھر خسارہ بڑھتا ہی جائے گا۔ ہمیں مالی نظم و ضبط اور خودانحصاری کو اپنانا ہوگا۔ بار بار یہ کہا جاتا ہے کہ سٹرکچرل ریفارمز نہیں ہو رہیں، لیکن ہم مسلسل ان پر کام کر رہے ہیں۔
فارمل اور آن لائن ریٹیل پر یکساں ویلیو ایڈیشن، زراعت پر ٹیکس مؤخر
چیئرمین ایف بی آر اور سیکریٹری خزانہ نے بریفنگ میں وضاحت دی کہ حکومت نے آن لائن اور فارمل ریٹیل سیکٹر کے درمیان ٹیکس میں توازن برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے، جبکہ زراعت پر ٹیکس نہ لگانے کا فیصلہ کسانوں کے تحفظ کے پیش نظر کیا گیا ہے۔
چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ فارمل ریٹیل سیکٹر میں بھی ویلیو ایڈیشن اتنی ہی ہوتی ہے جتنی آن لائن ہوتی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ آن لائن بیچنے والوں کی آمدن کا کوئی ریکارڈ نہیں ہوتا، جبکہ فارمل سیکٹر پر مکمل ٹریکنگ موجود ہے۔
مزید پڑھیں: فیلڈ مارشل کا دورہ امریکا، دفاعی بجٹ میں اضافہ اور سرینڈر مودی
ان کا کہنا تھا کہ اگر 18 فیصد کا ٹیکس فرق نکال دیا جائے تو مارکیٹ میں لیول پلیئنگ فیلڈ ختم ہو جائے گا۔ انہوں نے مزید وضاحت کی کہ چیزیں چاہے آن لائن خریدی جائیں یا دکان سے، ٹیکس آخرکار صارف ہی ادا کرتا ہے۔ ہمارا مقصد شفافیت اور مساوی نظام کو یقینی بنانا ہے۔
سیکریٹری خزانہ نے بتایا کہ آئی ایم ایف کی جانب سے زراعت پر اس مالی سال میں ٹیکس عائد کرنے کا مطالبہ تھا، تاہم حکومت نے اس سے وقتی طور پر اجتناب کیا۔ ہم نے آئی ایم ایف سے درخواست کی کہ اس سال زراعت پر ٹیکس نہ لگایا جائے۔ زرعی ادویات اور پیسٹی سائیڈز پر بھی ٹیکس لگانے کا ارادہ تھا، لیکن کسانوں کے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ اقدام مؤخر کیا گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ زراعت ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ ہم کئی تجاویز پر غور کر رہے ہیں جن کے ذریعے زراعت کو مستحکم اور جدید خطوط پر استوار کیا جا سکے۔
چھوٹے گھروں کے لیے قرض اسکیم جلد متعارف کرانے جارہے ہیں
مزید پڑھیں: بجٹ 26-2025: نان فائلر کو پراپرٹی لینے میں کتنی سہولت ملے ہوگی؟
وزیر خزانہ نے چھوٹے گھروں کے لیے قرض اسکیم جلد متعارف کرانے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر کسی کو اپنا گھر بنانا ہے اور خاص طور پر 5 مرلے سے چھوٹا گھر بنانا ہے تو اس میں مورگیج فنانسنگ کی بات بہت اہم ہے، اسٹیٹ بینک کے ساتھ مل کر طے کیا جائے گا کہ کتنا قرض فراہم کرنا ہے، پھر اس اسکیم کو جلد لانچ کرنے والے ہیں۔