بھارت کی شرح پیدائش میں نمایاں کمی، وجوہات کیا ہیں؟

جمعرات 12 جون 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

بھارت کی شرح پیدائش 2 سے کم ہو گئی ہے اور اگر یہی رجحان جاری رہا تو سنہ 2065 کے بعد آبادی میں کمی کا امکان ہے جس کے اثرات نسلوں بعد ظاہر ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیں: ایئر انڈیا کا طیارہ پرواز بھرتے ہی کریش کرگیا، 242 افراد سوار، سابق وزیراعلیٰ گجرات سمیت 133ہلاکتوں کی تصدیق

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت کی اس وقت آبادی 1.5 ارب کے قریب پہنچ چکی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق آئندہ د2 دہائیوں میں یہ آبادی بڑھ کر 1.7 ارب تک جا سکتی ہے لیکن اس کے بعد آبادی میں تیزی سے کمی کا رجحان سامنے آنے کا امکان ہے۔ اقوام متحدہ کی ذیلی تنظیم یو این پاپولیشن فنڈ کی جانب سے جاری کردہ تازہ رپورٹ میں اس رجحان پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق سنہ 2065 کے بعد بھارت کی آبادی میں کمی کا امکان ہے جس کی بنیادی وجہ اوسط شرح پیدائش میں مسلسل کمی ہے جو اب گھٹ کر 1.9 ہو چکی ہے۔

آبادی کے استحکام کے لیے ضروری ہے کہ یہ شرح 2.1 کے آس پاس ہو، جسے ’ری پلیسمنٹ لیول‘ کہا جاتا ہے۔ موجودہ سطح اس سے کم ہے جس کا مطلب ہے کہ ہر نئی نسل پچھلی والی کی مکمل جگہ لینے کے قابل نہیں ہوگی۔

مزید پڑھیے: ایئر انڈیا کا طیارہ کیسے تباہ ہوا؟ ویڈیو منظر عام پر آگئی

فی الحال چونکہ ملک کی آبادی بہت بڑی ہے اس لیے اس کمی کے فوری اثرات نظر نہیں آئیں گے لیکن جب موجودہ نسل اپنی عمر پوری کرے گی تو آبادی میں کمی کا یہ رجحان واضح ہونے لگے گا۔

ماہرین کے مطابق اگر شرح پیدائش میں کمی کا یہ سلسلہ جاری رہا تو آبادی کی شرح نمو منفی ہو سکتی ہے یعنی ہر سال مجموعی آبادی گھٹنے لگے گی۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں اسی رجحان کو بنیاد بناتے ہوئے متنبہ کیا گیا ہے۔

یہ رپورٹ بھارت سمیت امریکا، انڈونیشیا اور دیگر 14 ممالک کے اعداد و شمار پر مبنی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سنہ 1960 میں ہندوستان کی آبادی تقریباً 43 کروڑ تھی اور تب فی خاتون کے ہاں اوسطاً 6 بچے پیدا ہوا کرتے تھے جبکہ آج یہ شرح 2 بچوں تک محدود ہو گئی ہے۔

اس تبدیلی کی کئی وجوہات ہیں جن میں ابتدائی تعلیم کا فروغ، خاندانی منصوبہ بندی کے طریقوں کے حوالے سے بیداری اور سہولیات کی دستیابی شامل ہیں۔

3 نسلیں: ماں، بیٹی اور نواسی کے کیا خیالات ہیں؟

رپورٹ میں بہار کے ایک خاندان کی 3 نسلوں کا جائزہ لیا گیا ہے جو اس سماجی تبدیلی کو بخوبی اجاگر کرتا ہے۔ 64 سالہ سرسوتی دیوی کے 5 بچے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے زمانے میں خاندانی منصوبہ بندی پر بات چیت بھی نہیں ہوتی تھی اور جس کے کم بچے ہوتے تھے اسے بیماری کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔

سرسوتی کی بہو، 42 سالہ انیتا کا تجربہ کچھ مختلف ہے۔ ان کی شادی 18 سال کی عمر میں ہوئی اور وہ 6 بچوں کی ماں ہیں حالانکہ وہ اتنے بچے نہیں چاہتی تھیں۔ ان کے مطابق شوہر اور ساس کی خواہش تھی کہ بیٹا ہو اس لیے بار بار حمل ہوا۔ اس کے برعکس انیتا کی بیٹی پوجا جو اس وقت 26 سال کی کا کہنا ہے کہ وہ 2 سے زیادہ بچے نہیں پیدا کریں گی کیونکہ وہ چاہتی ہیں کہ اپنے بچوں کو بہتر تعلیم، صحت اور سہولتیں فراہم کر سکے۔

مزید پڑھیں: سال 2024 میں کتنے افراد پیدا ہوئے، یکم جنوری 2025 کو دنیا کی آبادی کتنی ہوجائے گی؟

یہ تبدیلی نہ صرف انفرادی سوچ میں انقلاب کی عکاس ہے بلکہ آبادی کے مستقبل پر بھی گہرے اثرات مرتب کر رہی ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ ایک متوازن معاشرتی پالیسی کی ضرورت پر زور دیتی ہے تاکہ آنے والے وقت میں آبادی کی گراوٹ معاشی اور سماجی بحران کا باعث نہ بنے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp