وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے وفاقی حکومت کو خبردار کیا ہے کہ اگر پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام درست کرنے سمیت سولر پینل پر عائد کردہ 18 فیصد ٹیکس ختم نہیں کیا گیا تو پیپلز پارٹی وفاقی حکومت کو بجٹ کو سپورٹ نہیں کرے گی۔
پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے سندھ کا 17واں بجٹ پیش کیا، مگر اس سے صرف ایک دن قبل وفاقی حکومت نے ایک خط بھیج کر مالی وسائل میں غیر متوقع کمی کی اطلاع دی، جو ہمارے لیے ناقابلِ فہم تھی۔
یہ بھی پڑھیں:سندھ کے بجٹ برائے سال 26-2025 میں کراچی کے لیے کن منصوبوں کا اعلان کیا گیا ہے؟
مراد علی شاہ کے مطابق، بجٹ ہم نے 1900 ارب روپے کی بنیاد پر تیار کیا تھا، لیکن خط میں بتایا گیا کہ سندھ کو صرف 961.7 ارب روپے دیے جائیں گے، حالانکہ پہلے ہی ہمیں 422.3 ارب روپے کم مل چکے ہیں۔ ’سب نے کوشش کرلی سندھ کو وفاق سے نہیں چلاسکتے۔‘
وفاقی وعدوں سے انحراف، آئی ایم ایف کی شرائط کا دباؤ
مراد علی شاہ نے کہا کہ ہمیں 12 جون کو ایک خط موصول ہوا جس میں کہا گیا کہ این ایف سی کے فنڈز خرچ نہ کیے جائیں، کیونکہ وفاق چاہتا ہے کہ صوبے اپنے وسائل کو بچا کر رکھیں۔
انہوں نے واضح کیا کہ ہم پہلے ہی آئی ایم ایف پروگرام کا حصہ ہیں اور ہمارا زیادہ تر ٹیکس وفاق اکٹھا کرتا ہے، اس لیے ہم پر مالی دباؤ مسلسل بڑھ رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت ہمیں 299 ارب روپے کا سرپلس ظاہر کرنا ہے، مگر وفاق سے وعدے پورے نہ ہوں تو ترقیاتی کاموں پر برا اثر پڑتا ہے، کیونکہ تنخواہیں روکی نہیں جا سکتیں۔
انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال میں ہم 1460 جاری اسکیمیں مکمل کرنے جا رہے ہیں۔
ترقیاتی منصوبے: صاف پانی، سڑکیں، کراچی کے لیے خصوصی فنڈز
وزیر اعلیٰ سندھ نے بتایا کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں صاف پانی کی فراہمی کے لیے 90 ارب روپے کی اسکیمیں شروع کی جائیں گی۔ اس کے علاوہ، روڈ نیٹ ورک کے متعدد منصوبے بھی وفاق کے تعاون سے شامل کیے گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:پیپلز پارٹی ہمیشہ حکومت اور مسلح افواج کے شانہ بشانہ کھڑی رہی ہے، مراد علی شاہ
پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام میں سندھ نے 86 ارب روپے مالیت کے منصوبے رکھوائے، جن میں زیادہ تر سڑکوں کے منصوبے ہیں۔ کراچی کے لیے 236 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، جو کہ میگا پروجیکٹس، انفراسٹرکچر، اور پبلک سروسز میں بہتری کے لیے استعمال ہوں گے۔
مراد علی شاہ نے بتایا کہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت شروع کیے گئے منصوبے اس بجٹ میں شامل نہیں بلکہ علیحدہ ہیں، جن میں ایک ہزار بسوں، ڈی سالینیشن پلانٹس اور دیگر بڑے منصوبے شامل ہیں۔
میگا منصوبے اور موجودہ اسکیمیں
وزیر اعلیٰ نے وضاحت کی کہ میگا منصوبوں سے مراد وہ اسکیمیں ہیں جو اسی مالی سال میں مکمل ہوں، مگر انجنیئرز کی کمی کے باعث بہت سی اسکیمیں بیک وقت شروع کرنا ممکن نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت صوبے میں 12 اسکیمیں 17.5 ارب روپے کی لاگت سے جاری ہیں جبکہ مزید 2 منصوبے، مرغی خانہ برج، کورنگی کازوے اور جام صادق پل، تیاری کے مراحل میں ہیں۔ حب ڈیم کی بڑی اسکیم کو ابھی PSDP میں شامل نہیں کیا گیا۔
اسرائیلی جارحیت کی مذمت اور پارلیمانی مؤقف
مراد علی شاہ نے پریس کانفرنس کے آغاز میں اسرائیل کے ایران پر حالیہ حملوں کی شدید مذمت کی اور اسے دہشتگرد ریاست کا عمل قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس پر پورا عالمِ اسلام بات کر رہا ہے اور ہمیں اس پر پارلیمان میں آواز بلند کرنی چاہیے تھی۔
یہ بھی پڑھیں:سیاسی شاطر کو شطرنج کی بساط پر مات، مراد علی شاہ کے مقابلے میں مہک مقبول فاتح
انہوں نے بتایا کہ پیپلز پارٹی نے اس معاملے پر قرارداد لانے کی تجویز دی اور بعض اراکین کی مخالفت کے باوجود یہ قرارداد منظور کروائی گئی۔ مراد علی شاہ نے ان عناصر کی مذمت کی جو دہشت گردی کے خلاف قرارداد کی راہ میں رکاوٹ بنے۔
مراد علی شاہ نے کہا کہ وفاقی حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ سب کچھ ’آن ٹریک‘ ہے، تو پھر اسے اپنے وعدوں پر بھی عمل کرنا چاہیے۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ اگر وفاق صوبوں سے کیے گئے وعدے پورے کرے تو مالی انتظام بہتر ہو سکتا ہے اور عوامی ترقیاتی منصوبے بغیر کسی رکاوٹ کے مکمل کیے جا سکتے ہیں۔