سپریم کورٹ میں ججز ٹرانسفر کیس: وکلا کے تفصیلی دلائل، سماعت کل تک ملتوی

بدھ 18 جون 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں ججز کے تبادلے اور سینیارٹی سے متعلق کیس کی سماعت جاری ہے، جہاں بانی پی ٹی آئی کے وکیل کو دلائل سے روک دیا گیا۔ عدالت نے ہدایت کی کہ پہلے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اپنے دلائل مکمل کریں۔

یہ بھی پڑھیں:ججز سنیارٹی کیس: وفاقی حکومت کی تمام درخواستیں خارج کرنے کی استدعا

عدالت نے ریمارکس دیے کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کے دلائل پر شاید جواب الجواب دینا پڑے، اس لیے بانی پی ٹی آئی کے وکیل ایڈووکیٹ جنرل کے بعد دلائل دیں۔

سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل پنجاب امجد پرویز نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 1955 میں پاکستان کے گورنر جنرل کے آرڈر سے مغربی پاکستان کو ون یونٹ بنایا گیا۔ اس وقت تمام ہائیکورٹس کے سطح کی عدالتوں کو یکجا کر کے ایک عدالت بنایا گیا، تاہم ججز کی سابقہ سروس کو برقرار رکھا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ججز کی تقرری کی تاریخ کی بنیاد پر ایک سینیارٹی لسٹ مرتب کی گئی۔ 1970 میں ون یونٹ کے خاتمے پر ججز کو مختلف ہائیکورٹس میں منتقل کیا گیا اور ان کی سابقہ سروس کو تسلیم کیا گیا۔

مزید دلائل دیتے ہوئے امجد پرویز نے کہا کہ 1976 میں سندھ اور بلوچستان کی ہائیکورٹس کو علیحدہ کیا گیا اور اس موقع پر بھی ججز کو ٹرانسفر کرتے ہوئے ان کی سینیارٹی برقرار رکھی گئی۔

یہ بھی پڑھیں:‘ججز کے ٹرانسفر پر کسی جج کی سنیارٹی متاثر نہیں ہوتی’، سپریم کورٹ میں ججز تبادلہ اور سینیارٹی کیس کی سماعت

جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ اس کیس میں صورتحال مختلف ہے، کیونکہ ون یونٹ پر نئی عدالتی تشکیل ہوئی تھی اور اس کی تحلیل پر بھی نئی ہائیکورٹس وجود میں آئیں، جبکہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز کے تبادلے پر کوئی نئی تشکیل یا تحلیل نہیں ہوئی۔

امجد پرویز نے کہا کہ ان کا مؤقف صرف اتنا ہے کہ ماضی میں ہمیشہ ججز کی سابقہ سروس کو تسلیم کیا گیا۔ انہوں نے مثال دی کہ پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کے لیے اسپیشل کورٹ تشکیل دی گئی تھی جس میں پانچ ہائیکورٹس کے ججز کے ناموں میں سے تین کو عدالت کا جج بنایا گیا اور ان میں سے سینئر موسٹ جج کو عدالت کا سربراہ مقرر کیا گیا۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ جوڈیشل کونسل یا آرٹیکل 6 کے تحت اسپیشل کورٹ میں ججز مخصوص مدت کے لیے تعینات ہوتے ہیں، تاہم یہاں معاملہ یہ ہے کہ آرٹیکل 200 کے تحت جج کا تبادلہ مستقل ہوگا یا عارضی۔

انہوں نے مزید کہا کہ اٹارنی جنرل پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ ججز کا تبادلہ مستقل کیا گیا ہے۔

امجد پرویز نے عدالت کو آگاہ کیا کہ وہ ٹرانسفر کیے گئے جج کی مدتِ تعیناتی پر بھی دلائل دیں گے۔

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں ججز کی سینیارٹی اور ٹرانسفر سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل پنجاب امجد پرویز نے دلائل دیے کہ جہاں صدرِ مملکت کو مدت طے کرنے کا اختیار آئین میں واضح طور پر دیا گیا ہو، وہاں ان کا یہ اختیار تسلیم کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ججز کی ٹرانسفر ایک مستقل عمل ہے، اور “Such Period” اور “During the Period” جیسے الفاظ میں فرق یہ ہے کہ “Such Period” میں مدت واضح ہوتی ہے جبکہ “During the Period” کا مطلب ٹرانسفر مستقل تصور کی جاتی ہے۔

اس پر جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ “شکر ہے آپ نے یہ نہیں کہہ دیا کہ ‘During the Period’ کا مطلب یہ ہے کہ ٹرانسفر انتقال تک کے لیے ہوگی۔” جسٹس شکیل احمد نے بھی سوال اٹھایا کہ ٹرانسفر کے عمل میں سمری میں کہیں بھی ’پبلک انٹرسٹ‘ کا ذکر نہیں کیا گیا۔ اس پر امجد پرویز نے کہا کہ آرٹیکل 200 میں ’پبلک انٹرسٹ‘ کا کوئی ذکر نہیں ہے۔

دورانِ سماعت جسٹس نعیم اختر افغان نے استفسار کیا کہ 14 ججز کو چھوڑ کر 15ویں نمبر پر موجود جج کو کیوں ٹرانسفر کیا گیا؟ اس پر ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ سمری پر کسی عام آدمی نے نہیں بلکہ ججز نے رائے دی، اور ججز آئین و قانون سے بخوبی واقف ہوتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جہاں ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کو اضافی جج کی ضرورت ہو، وہاں مدت کا ذکر کیا جاتا ہے۔

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب امجد پرویز کے دلائل مکمل ہونے کے بعد بانی پی ٹی آئی کے وکیل ادریس اشرف نے اپنے دلائل کا آغاز کیا۔ سماعت کے اختتام پر جسٹس محمد علی مظہر نے ان سے استفسار کیا کہ انہیں مزید کتنا وقت درکار ہوگا، جس پر ادریس اشرف نے کہا کہ زیادہ سے زیادہ 15 منٹ درکار ہوں گے۔ اس پر اٹارنی جنرل نے بھی کہا کہ انہیں بھی صرف 15 منٹ لگیں گے۔

ذوالفقار علی بھٹو کیس کا حوالہ دیتے ہوئے جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ اس مقدمے کے دوران ججز وکلاء سے بار بار کہتے رہے کہ دلائل جلد مکمل کریں اور بلاوجہ تاخیر نہ کریں۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ وکلا کے طویل دلائل کے باعث کیس تاخیر کا شکار ہوتا رہا اور وقت گزرنے کے ساتھ ججز ریٹائر ہوتے گئے۔ نتیجتاً ججز کی ریٹائرمنٹ کے باعث بینچ کی ترکیب (کمپوزیشن) ہی تبدیل ہو گئی۔

عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی، جہاں ادریس اشرف اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp