سابق وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو اس وقت کل 13 کیسز کا سامنا ہے جن میں سے 12 کا تعلق اینٹی کریشن سے جب کہ ایک کا نیب سے ہے۔ اینٹی کرپشن میں غیر قانونی ٹھکیے، بھرتیوں اور رشوت وصولی کے حوالے سے مقدمات درج ہیں جب کہ نیب میں آمدن سے زائد آثاثوں کا ایک کیس چل رہا ہے۔
عثمان بزدار کے کیسز کی قانونی حیثیت اور اس پر گرفتاری بننے نہ بننے کے حوالے سے وی نیوز نے ممتاز قانونی ماہرین سے گفتگو کی جس پر ملی جلی آرا سامنے آئیں۔
’الزامات سے متعلق جمع کیے گئے دستاویزات میں وزن ہے‘
قانونی ماہر ایڈوکیٹ میاں داؤد کا وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ عثمان بزدار پر کرپشن کے چارجز موجود ہیں جن کے حوالے سے اینٹی کریشن نے جو دستاویزات منسلک کی ہیں ان کے مطابق تو سابق وزیر اعلیٰ پنجاب کی گرفتاری بنتی ہے۔
عثمان بزدار کی ضمانت ختم ہونے پر لگتا ہے کہ عدالت انہیں پھر مزید ریلیف نہیں دے گی اور وہ گرفتار ہو جائیں گے۔
’عثمان بزدار ایک دو سماعتوں کے بعد سلاخوں کے پیچھے ہوں گے‘
وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے سنیئیر قانون دان غلام عباس ہرل نے کہا کہ سنہ 2104 میں سرور کیس میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے یہ فیصلہ دیا تھا کہ اگر ایف آئی آر درج ہو بھی جائے لیکن جب تک ٹھوس شواہد موجود نہ ہوں ملزم کو گرفتار نہیں کیا جاسکتا اب چوں کہ عثمان بزدار کیس میں بھی ویسا ہی معاملہ ہے اس لیے عدالت اب تک ادروں کو گرفتاری سے روک رہی ہے۔ تاہم غلام عباس کا کہنا تھا کہ ان کی نظر میں سابق وزیر اعلیٰ پنجاب ایک دو سماعتوں کے بعد گرفتار ہو جائیں گے کیوں کہ جو تفتیشں اینٹی کریشن نے کی ہے اس کے مطابق ملزم کا گرفتار ہونا بنتا ہے۔
ایک وفاقی وزیر ریفرنس فائل ہوجانے کے باوجود گرفتار نہیں کیے گئے
غلام عباس کا مزید کہنا تھا کہ سابق وفاقی وزیر بابر اعوان پر نیب نے ریفرنس تک دائر کر دیا تھا لیکن انہیں گرفتار نہیں کیا گیا حالاں کہ عام آدمی کے خلاف صرف شکایت چلی جائے تو گرفتاری عمل میں لے آئی جاتی ہے لیکن بااثر افراد کی گرفتاری ایک پیچیدہ کام بنا دی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بالکل اسی طرح عثمان بزدار بھی اپنے اثر و رسوخ کی وجہ سے اب تک بچے ہوئے ہیں لیکن کیس کی نوعیت بتا رہی ہے کہ عثمان بزدار گرفتار ہوجائیں گے۔
’نیب کو معلوم ہی نہیں کہ مبینہ آمدن سے زائد آمدنی کی مالیت کیا ہےـ
عثمان بزدار کے وکیل بیریسٹر مومن ملک کا کہنا تھا آمدن سے زائد اثاثہ جات انکوائری کیس میں احتساب عدالت نے نیب پراسیکیوٹر سے دریافت کیا کہ کیا عثمان بزدار کی مبینہ کرپشن 50 کروڑ سے متجاوز ہے تو اس پر تفتیشی افسر نے عدالت کو جواب دیا کہ ابھی تک اس کا تعین نہیں ہوسکا۔ بیریسٹر نے مزید بتایا کہ اس پر عدالت نے کہا کہ اگلی سماعت پر بتایا جائے کہ یہ تفتیش کیسے شروع ہوگی؟
انہوں نے بتایا کہ نیب تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا تھا کہ عثمان بزدار کے خلاف 10 ارب روپے کی شکایت موصول ہوئی ہے جس پر پھر عدالت نے استفسار کیا کہ عثمان بزدار نے کیا اثاثے بنائے اور کس کے نام پر بنائے، تفتیشی افسر نے جواب دیا کہ عثمان بزدار نے اپنے والد اور فیملی کے نام پر اثاثے بنائے۔
میرے پورے خاندان کے پاس 10 ارب کے اثاثے نہیں ہیں
مومن ملک کا کہنا تھا کہ عثمان بزدار نے عدالت سے کہا کہ ان کے والد وفات پا چکے ہیں اور ان کے پورے قبیلے کے اثاثے بھی 10 ارب روپے کے برابر نہیں بنتے جب کہ نیب کا کہنا ہے کہ ان کے پاس 10 ارب کے اثاثے ہیں حالاں کہ ایسا ہر گز نہیں ہے۔
بیریسٹر کا کہنا تھا کہ ’عثمان بزدار پر جھوٹے مقدمات بنائے گئے ہیں اور اب تک تو تعین ہی نہیں ہوسکا کہ اثاثے ہیں کتنی مالیت کے اس لیے مجھے امید ہے کہ وہ ان مقدمات میں جلد بری ہوجائیں گے۔
واضح رہے کہ عدالت نے جمعہ کو اینٹی کرپشن کو 8 مئی تک عثمان بزدار کو گرفتار کرنے سے روک دیا ہے۔ عدالت نے لارجر بینچ میں سماعت کے لیے مقرر کرنے کی سفارش کرتے ہوئے واپس درخواست چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کو ارسال کر دی ہے۔