ایٹمی جنگ اور تابکاری کا سایہ، کیا پاکستان کی فضا زہر آلود ہو رہی ہے؟

جمعرات 19 جون 2025
author image

عبید الرحمان عباسی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

 یہ سوال موجودہ  دور کی بات نہیں رہا کہ اگر اسرائیل ایران پر ایٹمی حملہ کرے تو کیا ہوگا؟ اس کے عوض، یہ ایک فوری تشویش بن گیا ہے جو پورے خطے میں سنجیدہ توجہ کا متقاضی ہے۔

مشرق وسطیٰ میں جوہری تصادم ایران کی سرحدوں تک محدود نہیں رہے گا۔ اس کا ماحولیاتی، انسانی اور جغرافیائی سیاسی نتیجہ پاکستان اور بہت سے پڑوسی ممالک پر ان طریقوں سے اثر انداز ہو سکتا ہے جن کے لیے ہم مکمل طور پر تیار نہیں ہیں۔

 نیوکلیئر فال آؤٹ: ایک علاقائی نہ صرف ایک قومی آفت

 جوہری ہتھیار سرحدوں کو تسلیم نہیں کرتے۔ اگر اسرائیل ایران کی جوہری تنصیبات کو جوہری ہتھیاروں سے نشانہ بناتا تو یہ دھماکہ نہ صرف ایران میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلاتا بلکہ تابکار ذرات ہوا کے ذریعے ہزاروں کلومیٹر تک پھیل سکتے ہیں۔

پاکستان، افغانستان، ترکمانستان، عراق، اور یہاں تک کہ خلیج کے ممالک تابکار آلودگی کی مختلف ڈگریوں کا تجربہ کر سکتے ہیں، یہ دھماکے کے سائز اور قسم، موسم کے نمونوں اور خطوں پر منحصر ہے۔

قطر اس خطے کا پہلا ملک ہے جس نے پیر کے روز باضابطہ طور پر اعلان کیا کہ اس کے متعلقہ حکام کی جانب سے ہوا اور پانی کے معیار کی جانچ پڑتال کے بعد پتہ چلا ہے کہ ہوا اور پانی پر کوئی نیوکلیئر اثر نہیں ہوا اور ہر چیز معمول پر ہے۔

کویت نے بھی  اپنے عوام کے لیے سرکاری سطح پر اعلان کر دیا، اطلاعات ہیں کہ دیگر خلیجی ممالک بھی اس کے اثرات کی جانچ کر رہے ہیں۔

جنوب مغربی پاکستان، خاص طور پر بلوچستان، جنوبی پنجاب، اور خیبر پختونخواہ کے کچھ حصے میں اگر ہوا مشرق کی طرف چلتی ہے تو براہ راست بے نقاب ہو سکتی ہے۔

 کیا پاکستان تیار ہے؟ تابکاری کی نگرانی کے نظام کا کردار

 پاکستان کے پاس نیشنل نیوکلیئر ڈیٹیکشن سسٹم (NNDS) ہے، جو فضا میں تابکاری کی سطح کی نگرانی کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ خطے میں جوہری حملے کی صورت میں، یہ نظام تابکار فال آؤٹ کو چالو اور ٹریک کرنے کے لیے سمجھا جاتا ہے۔

 لیکن کیا یہ نظام کافی ہے؟  کیا ہمارے ادارے تکنیکی طور پر تیار ہیں یا مناسب طریقے سے فنڈز فراہم کر رہے ہیں اور عالمی سطح پر اس پیمانے کی جوہری ایمرجنسی کے لیے ہم آہنگ ہیں؟ اس سے پہلے کہ بحران پھوٹ پڑے۔ یہ وہ سوالات ہیں جو فوری جوابات کا مطالبہ کرتے ہیں۔

 IAEA کی تصدیق اور ذمہ داری

انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (IAEA) نے حال ہی میں تصدیق کی ہے کہ ایران نے نطنز جوہری تنصیب پر اسرائیل کے روایتی حملوں کے بعد تابکاری کی سطح میں کوئی اضافہ نہ ہونے کی اطلاع دی تھی۔

لیکن جوہری حملہ ایک بالکل مختلف منظر نامہ ہو گا، جس کے انسانی صحت، زراعت، پانی کی فراہمی اور ماحولیاتی نظام کے لیے وسیع نتائج ہوں گے۔

 IAEA، WHO، اورUNE جیسی عالمی ایجنسیاں ممکنہ طور پر ایسی صورت حال میں تیزی سے جواب دیں گی، لیکن مقامی تیاری دفاع کی پہلی لائن ہے۔

پاکستان کو فوری طور پر کیا اقدامات کرنے چاہئیں؟

  1. تابکاری کی نگرانی کے نظام کو اپ گریڈ کریں۔ پاکستان کو اپنے جوہری سراغ رسانی کے بنیادی ڈھانچے کو جدید، وسعت اور یقینی بنانا چاہیے کہ یہ 24 گھنٹے مکمل طور پر کام کر رہا ہے۔
  2. ریڈیولاجیکل ایمرجنسی کے لیے ہسپتالوں کو تیار کریں۔ بڑے ہسپتالوں کو تابکاری سے متاثر لوگوں کے علاج کے لیے مخصوص ہنگامی یونٹس قائم کرنے چاہئیں، جن میں مناسب طبی سامان اور تربیت یافتہ عملہ موجود ہو۔
  3. عوامی بیداری کی مہمات، شہریوں کو بنیادی تعلیم کی ضرورت ہے کہ جوہری فال آؤٹ کے دوران کیا کرنا چاہیئے، تابکار بارش یا آلودگی کی صورت میں پانی، خوراک اور پناہ گاہ کی حفاظت کیسے کی جائے۔
  4. سفارتی دباؤ اور علاقائی مصروفیت،پاکستان کو اسرائیل یا کسی بھی ریاستی اداکار کی طرف سے جوہری ہتھیاروں کے ممکنہ استعمال کی مذمت کرتے ہوئے تحمل اور پرامن حل پر زور دیتے ہوئے اس مسئلے کو اقوام متحدہ، او آئی سی اور آئی اے ای اے کے پلیٹ فارمز میں اٹھانا چاہیے۔

 نتیجہ: تابکاری کوئی سرحد نہیں دیکھتی، کوئی قوم نہیں۔

ایٹمی جنگ میں کوئی فاتح نہیں ہوتا۔ اگر اسرائیل ایٹمی دہلیز کو عبور کرتا ہے تو وہ پورے خطے کو ماحولیاتی اور انسانی تباہی میں ڈال سکتا ہے۔  پاکستان نقشے پر میلوں دور ہو سکتا ہے لیکن ہوا، پانی اور تابکاری بغیر پاسپورٹ کے سفر کرتی ہے۔

 خاموش رہنا اب کوئی آپشن نہیں ہے۔ پاکستان کو بدترین صورت حال سے نمٹنے کے لیے قومی اور سفارتی سطح پر فوری طور پر تیار رہنا چاہیے۔

غیر فعال ہونے کی قیمت، تیاری کی لاگت سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔ اس سلسلے میں راقم نے  متعلقہ حکام سے واٹس ایپ اور ای میل کے ذریعے درخواست کی لیکن یہ آرٹیکل فائل کرنے تک وہ جواب نہ دے سکے۔

بلکہ ترجمان نے مجھے بتایا کہ جواب مناسب چینل کے ذریعے دیا جائے گا۔ جو ابھی تک نہیں آیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس اہم معلومات کے بارے میں عوام کو آگاہ کرنے میں کتنے سنجیدہ ہیں۔ تاہم اب وقت آگیا ہے کہ حکام عوام کو اعتماد میں لیں اور انہیں ان کے بنیادی حقوق سے آگاہ کریں۔

تحریر: عبید الرحمان عباسی

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

مصنف سابق سینئر ایڈیشنل ڈائریکٹر لاء پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی اور اسلام آباد میں مقیم ایوی ایشن اینڈ انٹرنیشنل لاء کنسلٹنٹ ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp