امریکا مذاکرات کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے، جب تک صیہونی جارحیت جاری ہے کوئی بات نہیں ہوگی،ایران

جمعہ 20 جون 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ایران کے نائب وزیر خارجہ عباس عراقچی نے واضح کیا ہے کہ ایران اپنے میزائل یا دفاعی صلاحیتوں پر کسی قسم کی بات چیت نہیں کرے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ جمعے کو جنیوا میں یورپی نمائندوں سے ہونے والے مذاکرات صرف ایٹمی پروگرام اور علاقائی معاملات تک محدود رہیں گے۔

ایرانی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے عراقچی نے کہا کہ وہ جنیوا صرف ایٹمی اور علاقائی مسائل پر بات چیت کے لیے جا رہے ہیں۔

انہوں نے زور دے کر کہا کہ ایران اپنے میزائل پروگرام پر کسی سے بات نہیں کرے گا۔

عراقچی نے کہا کہ ایران کے میزائل سسٹم کا مقصد ملک کا دفاع کرنا اور دشمنوں کو روکنا ہے، اور ان دفاعی صلاحیتوں پر کوئی سودے بازی نہیں کی جائے گی۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ اسرائیل کی جارحیت کے دوران امریکا ایران پر مذاکرات کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے، لیکن جب تک صیہونی جارحیت جاری ہے، بات چیت یا سفارتکاری کا کوئی موقع نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکا نے ایران کو کئی پیغامات بھیجے ہیں تاکہ مذاکرات کا آغاز ہو، لیکن ایران کا مؤقف واضح ہے کہ جب تک اسرائیلی حملے بند نہیں ہوتے، اس وقت تک کوئی بات چیت ممکن نہیں۔

عراقچی نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ ایران اپنے دفاع کا حق استعمال کر رہا ہے، اور یہ دفاع کسی صورت نہیں رُکے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایران کا امریکا سے کوئی رابطہ نہیں ہے اور موجودہ حالات میں ایسا کوئی ارادہ بھی نہیں۔

عباس عراقچی آج یورپی ٹرائیکا (جرمنی، فرانس، برطانیہ) اور یورپی یونین کے خارجہ پالیسی کے سربراہ کے ساتھ سوئٹزرلینڈ میں ملاقات کر رہے ہیں۔

یہ اجلاس ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب اسرائیل نے 13 جون کو ایران پر حملے شروع کیے تھے، جن میں ایران کی جوہری، عسکری اور رہائشی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا، اور کئی اعلیٰ فوجی افسران، سائنسدان اور شہری شہید ہوئے۔

جوابی کارروائی میں ایران کی پاسدارانِ انقلاب کی ایرو اسپیس فورس نے اب تک 16 حملوں کی لہر کے تحت اسرائیل پر میزائل برسائے ہیں، جنہیں ’آپریشن ٹروپرموس 3‘ کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔

ایران کی مسلح افواج نے جمعہ کی صبح قابض صیہونی حکومت کے خلاف میزائل حملوں کی 16ویں جوابی لہر کا آغاز کیا، جس میں مقبوضہ فلسطینی علاقوں

میں متعدد اہداف کو نشانہ بنایا گیا۔

یہ کارروائیاں ’آپریشن ٹرو پرامس 3‘ کے تحت کی جا رہی ہیں، جو ایران پر اسرائیل کی جارحانہ جنگ کے جواب میں شروع کیا گیا۔

20  جون کو ایرانی پاسدارانِ انقلاب کی ایرو اسپیس فورس کی جانب سے داغے گئے میزائلوں کا نشانہ زیادہ تر مقبوضہ علاقوں کے جنوبی حصے تھے۔ ایران کے میزائل حملوں کے دوران جنوبی علاقے نیگیو میں خطرے کے سائرن بجائے گئے۔ اسی علاقے کے شمالی حصے میں اسرائیلی نیواتیم ایئربیس واقع ہے۔

عبرانی زبان کے میڈیا نے تصدیق کی ہے کہ گیو-یام نیگیو کے مختلف مقامات پر میزائل حملوں کے بعد دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں۔ صیہونی خبر رساں اداروں کے مطابق، ایران کا ایک میزائل بیئر شیبا میں مائیکروسافٹ کمپنی کے قریب آ گرا۔

عرب ٹی وی نے بیئر شیبا کے میئر کے حوالے سے بتایا کہ ایرانی میزائل نے نشانے پر براہِ راست ضرب لگائی، اور اسرائیلی فضائی دفاعی نظام کی جانب سے اسے روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔

المسیرہ ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق، بیئر شیبا میں واقع ہائی ٹیک اور سائبر سیکیورٹی مرکز کو بھی حملے میں نقصان پہنچا ہے۔

گیو-یام نیگیو ٹیکنالوجی پارک میں موجود مائیکروسافٹ کے دفتر کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ یہ پارک روبوٹکس، ڈیٹا سائنس اور دیگر جدید شعبوں میں تحقیق و ترقی کا مرکز ہے۔

یہ ٹیکنالوجی پارک بن گوریون یونیورسٹی کے قریب واقع ہے اور اس کے ساتھ ہی اسرائیلی فوج کے C4i (کمان، کنٹرول، کمیونیکیشن، کمپیوٹر) اور ٹیلی کمیونی کیشنز کے کیمپس بھی ہیں۔

اب تک کی اطلاعات کے مطابق اس حملے میں 7 افراد معمولی زخمی ہوئے ہیں۔

آیت اللہ علی خامنہ ای کے رہائشی علاقے اور جوہری تنصیبات پر اسرائیلی حملے

مشرق وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پس منظر میں، اسرائیلی وزیر دفاع کی جانب سے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو ہدف بنانے کی کھلی دھمکی کے بعد اسرائیل نے خامنہ ای کے رہائشی علاقے اور متعدد جوہری اہداف بھی نشانہ بنائے ہیں۔

ایرانی ذرائع کے مطابق تل ابیب نے تہران کے ’لاویزان‘ علاقے میں جو اعلیٰ عہدے داروں اور خامنہ ای کے قریبی حلقے کا رہائشی علاقہ سمجھا جاتا ہے، نئی فضائی کارروائی کی، جس سے وہاں آگ اور دھواں اٹھتا رپورٹ کیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: ایران کے تازہ و کاری ترین حملے پر اسرائیل بلبلا اٹھا، آیت اللہ خامنہ ای کو شہید کرنے کی دھمکی

ایک اور حملے میں اسرائیل نے بڑے پیمانے پر نطنز، اراک، اصفہان اور خرم آباد سمیت جوہری مراکز پر حملے کیے۔ خاص طور پر ارا ک ہیوی واٹر ریئیکٹر کے گنبد پر حملہ ہوا، جہاں ایک بڑا گڑھا بن گیا۔ اقوام متحدہ کے IAEA کے مطابق وہاں ہلکی نوعیت کا جوہری مواد موجود تھا مگر ریکٹر کا ایندھن موجود نہیں تھا۔

ادھر امریکی روزنامہ نیویارک ٹائمز نے خبردار کیا ہے کہ اگر فوجی دباؤ میں اضافہ جاری رہا، تو یہ ایران کو جوہری ہتھیار بنانے کی راہ پر مجبور کر سکتا ہے۔ جوہری تنصیبات پر مسلسل حملوں کے پیش نظر یہ خطرہ مزید بڑھ گیا ہے۔

ایران کے سابق وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے کہا ہے کہ ایران خود نہایت محتاط انداز میں فیصلہ کرے گا کہ یہ جنگ کب اور کیسے ختم ہوگی، اور بیرونی طاقتوں کو اس میں مداخلت کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

مزید پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ آئندہ دو ہفتوں میں ایران سے مذاکرات پر فیصلہ کریں گے، ترجمان وائٹ ہاؤس

اسرائیل ایران جنگ پر سلامتی کونسل کا اجلاس آج ہوگا

اسرائیل اور ایران  کے درمیان جاری جنگ پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اہم اجلاس آج ہوگا۔ اس کے علاوہ جرمنی، فرانس اور برطانیہ کے وزرائے خارجہ آج جنیوا میں ایرانی ہم منصب سے جوہری مذاکرات کریں گے۔ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے بھی مذاکرات میں شرکت کی تصدیق کردی۔ واضح رہے کہ  یورپی وزرائے خارجہ کی ایرانی ہم منصب سے ممکنہ ملاقات پر امریکا نے بھی اتفاق کیا۔

ایران کیخلاف اسرائیلی جارحیت، او آئی سی وزرائے خارجہ اجلاس 21 جون کو استنبول میں ہوگا

ایران کے خلاف اسرائیلی جارحیت کے حوالے سے او آئی سی وزرائے خارجہ کا 2 روزہ اجلاس ہفتہ 21 جون کو استنبول میں ہوگا۔ او آئی سی کے ذرائع کے مطابق نائب وزیرِاعظم و وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار پاکستان کی نمائندگی کریں گے۔ پہلے افتتاحی اجلاس سے ترک صدر طیب اردوان اور سعودی وزیرِ خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان خطاب کریں گے۔

مزید پڑھیں: اسرائیل کی ایرانی سپریم لیڈر کو دھمکی، آیت اللہ علی السیستانی نے عالمی رہنماؤں کو خبردار کردیا

برطانوی وزیراعظم کی ٹرمپ سے دماغ ’ٹھنڈا‘ رکھنے کی اپیل

برطانوی وزیراعظم سر کیئر اسٹارمر نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے دماغ ٹھنڈا رکھنے کی اپیل کر دی۔ ایران پر حملے کے منصوبے کی منظوری کی خبر پر ردِعمل میں برطانوی وزیراعظم کے ترجمان نے کہا کہ محاذ آرائی کسی کے مفاد میں نہیں ، برطانیہ ٹھنڈے دماغوں کے ساتھ سفارت کاری کو آگے بڑھتا دیکھنا چاہتا ہے ۔

خیال رہے کہ امریکی اوربرطانوی اخبارات نے خبردی تھی کہ ٹرمپ نے ایران پر حملےکی منظوری دے دی ہے۔ تاہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران پر حملےکے منصوبےکی منظوری کی خبر کو مسترد کر دیا۔ اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر جاری بیان میں ٹرمپ کا کہنا تھا کہ امریکی اخبار کو آئیڈیا نہیں کہ میں ایران کے بارے میں کیا سوچ رہا ہوں۔

ایران نے پاسدارانِ انقلاب کے نئے انٹیلیجنس چیف کا اعلان کر دیا

ایران نے جنرل محمد کاظمی کی اسرائیلی حملے میں شہادت کے بعد پاسدارانِ انقلاب کے نئے انٹیلی جنس چیف کا اعلان کر دیا۔ ایرانی میڈیا کے مطابق جنرل مجید خادمی کو پاسدارانِ انقلاب کی انٹیلی جنس تنظیم کا نیا سربراہ مقرر کر دیا گیا ہے۔ جنرل مجید خادمی اس سے قبل وزارتِ دفاع میں انٹیلی جنس پروٹیکشن آرگنائزیشن کے سربراہ کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں۔ ایرانی پاسدران انقلاب کے مطابق اتوار کو تہران پر اسرائیل کے حملوں کے نتیجے میں انٹیلی جنس چیف جنرل محمد کاظمی، ان کے نائب جنرل حسن محقق اور جنرل محسن باقری شہید ہوئے تھے۔

مزید پڑھیں: روس اور چین کی ایران پر اسرائیلی حملے کی مذمت، تنازع کے سفارتی حل پر زور

امریکی حملوں کی صورت میں ایران آبنائے ہرمز کو ٹرمپ کارڈ کے طور پر استعمال کرے گا، ماہرین

ایران نے دھمکی دی ہے کہ اگر امریکا نے جنگ میں اسرائیل کا ساتھ دیا تو آبنائے ہرمز بند کر دی جائے گی۔ آبنائے ہرمز سے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت اور ایران سے یومیہ قریباً 21 ملین بیرل تیل دیگر ممالک کو پہنچایا جاتا ہے، ان ملکوں میں پاکستان، چین، جاپان، جنوبی کوریا، یورپ، شمالی امریکا اور دنیا کے دیگر ممالک شامل ہیں۔

روس کا انتباہ

روس کی وزارت خارجہ نے جمعرات کے روز امریکا کو خبردار کیا ہے کہ وہ مشرقِ وسطیٰ میں جاری کشیدگی کے تناظر میں ایران کے خلاف کسی قسم کی فوجی مداخلت سے گریز کرے۔

یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسرائیل اور ایران کے درمیان جاری فضائی جنگ شدت اختیار کر چکی ہے اور امریکا کے اس تنازعے میں شامل ہونے کی قیاس آرائیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:ایران کی سلامتی کو یقینی بنایا جائے گا، روسی صدر پیوٹن

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس ہفتے ایک بیان میں مشرقِ وسطیٰ میں موجود امریکی افواج کی جانب سے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو قتل کرنے کے امکان کا عندیہ دیا، اور ساتھ ہی تہران سے ’بلا شرط ہتھیار ڈالنے‘ کا مطالبہ بھی کیا، جس سے صورتحال مزید کشیدہ ہو گئی۔

امریکا فوجی مداخلت سے گریز کرے

روس کی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زاخارووا نے جمعرات کو کہا:

ہم خاص طور پر واشنگٹن کو متنبہ کرتے ہیں کہ وہ اس صورتحال میں فوجی مداخلت سے گریز کرے۔ امریکا کی جانب سے ایسا کوئی قدم انتہائی خطرناک ہوگا جس کے نتائج سنگین اور ناقابلِ پیش گوئی ہوں گے۔

یہ انتباہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے چینی صدر شی جن پنگ سے فون پر گفتگو کی، جس میں دونوں رہنماؤں نے اسرائیلی کارروائیوں کی شدید مذمت کی اور فوری جنگ بندی پر زور دیا۔

کریملن کے بیان کے مطابق دونوں رہنما اسرائیل کے اقدامات کی شدید مذمت کرتے ہیں۔

مسئلہ سیاسی و سفارتی طریقوں سے حل ہونا چاہیے

روسی صدر کے خارجہ امور کے مشیر یوری اوشاکوف نے صحافیوں کو بتایا کہ ماسکو اور بیجنگ دونوں کا ماننا ہے کہ یہ تنازع صرف اور صرف سیاسی و سفارتی طریقوں سے حل ہونا چاہیے۔

روس، ایران کے ساتھ قریبی عسکری تعلقات رکھتا ہے، خاص طور پر یوکرین پر حملے کے بعد دونوں ممالک کے روابط مزید مضبوط ہوئے ہیں، لیکن ماسکو اسرائیل کے ساتھ بھی متوازن تعلقات برقرار رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔

ایران سے رابطے میں ہوں، پیوٹن

پیوٹن نے یہ بھی واضح کیا کہ اگرچہ اسرائیل کی بمباری کے بعد ایران سے رابطے میں ہیں، مگر ایران نے روس سے کسی قسم کی فوجی مدد کی درخواست نہیں کی۔

ان کے بقول ہمارے ایرانی دوستوں نے اس حوالے سے ہم سے کچھ نہیں کہا۔

انہوں نے مزید کہا کہ جنوری میں ایران کے ساتھ جو معاہدہ ہوا تھا، وہ دفاعی معاہدہ نہیں بلکہ تعاون کی نوعیت کا ہے، جس کے تحت دونوں فریق ایک دوسرے کو فوجی مدد دینے کے پابند نہیں۔

آیت اللہ خامنہ ای

جب پیوٹن سے پوچھا گیا کہ اگر آیت اللہ خامنہ ای کو قتل کر دیا گیا تو روس کا ردعمل کیا ہوگا، تو انہوں نے جواب دیا:

’میں ایسی کسی صورتحال پر بات کرنا بھی نہیں چاہتا۔‘

’ایران نے ابھی تک ’جدید ٹیکنالوجی‘ کے حامل استعمال نہیں کیے‘

ایران اور اسرائیل کے درمیان حالیہ کشیدگی میں جہاں ایرانی مسلح افواج نے بھرپور جوابی کارروائیاں کی ہیں، وہیں دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران نے اب تک اپنی نئی نسل کے میزائل استعمال ہی نہیں کیے۔

یہ بھی پڑھیں:ایران امریکی دھمکیوں کے آگے نہیں جھکے گا،  شہرام اکبرزادہ

اسرائیل کی جانب سے 13 جون کو ایران پر اچانک اور بغیر جواز کے حملے کیے گئے، جن میں جوہری، فوجی اور رہائشی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔ ان حملوں کے نتیجے میں متعدد فوجی کمانڈر، ایٹمی سائنسدان اور شہری شہید ہوئے۔

ایران نے ان حملوں کے فوری بعد جوابی کارروائیاں شروع کیں، اور 19 جون تک ایران کی اسلامی انقلابی گارڈز کی ایرو اسپیس فورس نے ’آپریشن ٹرو پرامس III‘کے تحت اسرائیلی اہداف پر 13 مرتبہ میزائل حملے کیے۔

اسرائیلی دفاع کو مفلوج کرنے والے 10 نکات

  1. رات اور دن میں حملے:

ایران نے دن اور رات کے مختلف اوقات میں حملے کر کے اسرائیلی دفاعی نظام کو غیرمنظم کر دیا ہے۔

  1. نقلی اور اصل حملوں کا امتزاج:

حملوں میں جعلی (decoy) اور اصل حملوں کا ملاپ اسرائیلی فضائی دفاع کو الجھا دیتا ہے۔

  1. مختلف اقسام کے ہتھیاروں کا استعمال:

ایران نے بیلسٹک میزائل، کروز میزائل اور خودکش ڈرونز جیسے مختلف ہتھیار استعمال کیے ہیں۔

  1. جدید دفاعی نظاموں کی ناکامی:

ایرانی میزائل جدید ترین دفاعی نظام جیسے THAAD، آئرن ڈوم اور ڈیوڈز سلنگ کو عبور کرتے ہوئے اپنے اہداف تک پہنچے۔

  1. غیر متوقع اور مسلسل حملے:

میزائل مختلف اقسام کے اور وقفے وقفے سے داغے گئے، جن کی پیشگوئی ممکن نہ تھی۔

  1. مختلف اہداف پر حملے:

ایرانی افواج نے مقبوضہ علاقوں میں متنوع اور حیران کن اہداف کو نشانہ بنایا۔

  1. پوری مقبوضہ سرزمین پر حملے:

ایرانی میزائل شمال سے جنوب تک تمام مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں پہنچے، کوئی علاقہ محفوظ نہ رہا۔

  1. تفصیلی ہدف ڈیٹا بینک:

ایران کے پاس ایک مکمل ڈیٹا بینک موجود ہے جس سے وہ فوجی اڈے، آئل ریفائنریاں اور دیگر اہم تنصیبات کو نشانہ بنا رہا ہے۔

  1. واضح وارننگز:

ایرانی افواج نے بارہا خبردار کیا کہ اب مقبوضہ علاقوں میں کوئی جگہ محفوظ نہیں رہی۔

  1. نئی میزائل ٹیکنالوجی ابھی باقی ہے:

ماہرین کے مطابق ایران نے ابھی تک اپنی کئی جدید اور لمبے فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کو استعمال نہیں کیا۔ اس حکمت عملی کے تحت ایران مسلسل اسرائیل کو دفاعی طور پر غیر یقینی کیفیت میں رکھنا چاہتا ہے۔

ایرانی جوابی حملے اسرائیلی دفاعی حکمت عملی کو بری طرح متاثر کر چکے ہیں، اور ماہرین کا ماننا ہے کہ ایران کی مزید جدید میزائل ٹیکنالوجی ابھی منظرعام پر آنی باقی ہے، جس سے آنے والے دنوں میں صورتحال مزید سنگین ہو سکتی ہے۔

ایران امریکی دھمکیوں کے آگے نہیں جھکے گا،  شہرام اکبرزادہ

آسٹریلیا کی ڈیکن یونیورسٹی کے ماہر شہرام اکبرزادہ کے مطابق ایران نے واضح کر دیا ہے کہ وہ اپنے جوہری پروگرام کی عالمی نگرانی (سخت معائنے) کو قبول کرنے پر تیار ہے۔

یہ بھی پڑھیں:ایران اسرائیل جنگ کس طرف جا رہی ہے؟

الجزیرہ کے مطابق شہرام اکبر زادہ کا  کہنا ہے کہ ایران یہ بھی واضح کر چکا ہے کہ وہ ایٹمی ہتھیار بنانے کا ارادہ نہیں رکھتا۔، اور اس کے بدلے میں ایران پابندیوں میں نرمی (سینکشنز ریلیف) چاہتا ہے۔

شہرام اکبرزادہ کے مطابق اگر یورپی ممالک ایسی کوئی تجویز دے سکیں جو ایران کی ان بنیادی شرائط (ریڈ لائنز) کا احترام کرے، تو سفارتی حل ممکن ہے۔

اکبرزادہ کا کہنا ہے کہ ایران سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ امریکا کی دھمکیوں کے آگے بغیر کسی شرط کے جھک جائے، کیونکہ ایران امریکی رویے کو دھونس (bullying) قرار دیتا ہے، خاص طور پر جب ایران کے سربراہ کو قتل کرنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہوں۔

لہٰذا ایران مکمل ہتھیار ڈالنے کے بجائے کوئی ایسا حل چاہے گا جس میں اس کی عزت بھی برقرار رہے اور سمجھوتے کی صورت نکل آئے۔

امریکی تعاون کے بغیر بھی ایران کیخلاف کارروائیاں جاری رہیں گی، نیتن یاہو

اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیلی فوج کی جانب سے ایران کی جوہری تنصیبات سمیت تمام اہم اہداف کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

انہوں نے خاص طور پر فورڈو کے جوہری مرکز کو بھی نشانہ بنانے کی بات کی جو زمین کے نیچے محفوظ مقام پر واقع ہے۔

یہ بھی پڑھیں:اسرائیل ایران تصادم: نیتن یاہو کی ڈوبتی سیاست کو کنارہ مل گیا

اسرائیلی میڈیا کے مطابق نیتن یاہو نے بتایا کہ اسرائیل یہ کارروائیاں امریکا کی مدد کے بغیر بھی کر سکتا ہے اور میزائل انٹرسیپٹرز کی کمی کے باوجود لانچرز کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، جو زیادہ اہم ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ مہم کئی مہینوں سے منصوبہ بندی میں تھی، خاص طور پر اس وقت سے جب حزب اللہ کو پچھلے سال کے آخر میں سخت نقصان پہنچایا گیا۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ حسن نصراللہ کی ہلاکت اور حماس کے خلاف کامیاب کارروائیوں نے ایران کے اثر و رسوخ کو توڑ کر رکھ دیا ہے۔

نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ اسرائیل ایران کے اندر سرکاری اہداف، علامتی مقامات اور بشمول نشر و اشاعت کے اداروں کو بھی نشانہ بنا رہا ہے، اور مزید حملے بھی کیے جائیں گے۔

نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ یہ ساری کارروائیاں ایران کی جوہری صلاحیت کو ختم کرنے اور خطے میں امن قائم رکھنے کے لیے ضروری ہیں، اور اسرائیل یہ عمل مکمل کرے گا چاہے عالمی حمایت ہو یا نہ ہو۔

ایران سے تصادم نے اسرائیلیوں کی نیند حرام کر دی،تحقیقاتی رپورٹ جاری

اسرائیلی شہریوں کو حماس اور ایران کے ساتھ جاری جنگوں کے دوران شدید ذہنی دباؤ اور نیند کی کمی کا سامنا ہے، جو ان کی صحت پر سنگین اثرات مرتب کررہا ہے۔

عالمی جریدے انٹرنیشنل جرنل آف کلینیکل اینڈ ہیلتھ سائیکالوجی میں شائع ہونے والی ایک نئی تحقیق کے مطابق، 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے کے بعد مسلسل راکٹ حملوں، میزائل فائرنگ اور ایمرجنسی سائرن نے اسرائیلی شہریوں کی نیند کے معیار کو بری طرح متاثر کیا ہے۔

تحقیق میں نیند کی شدید خرابی ظاہر

عبرانی یونیورسٹی اور ہداسا میڈیکل سینٹر کے محققین کی جانب سے کی گئی اس تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ جنگی حالات میں شہری آبادی کی نیند کے پیٹرن پر یہ پہلی منظم تحقیق ہے۔

تحقیق کی سربراہ پروفیسر شوہم چوشن ہلیل کے مطابق دنیا بھر میں جنگ کے اثرات پر تحقیق زیادہ تر فوجیوں پر مرکوز ہوتی ہے، لیکن اسرائیل میں صورتحال مختلف ہے۔ ’روزانہ کے خطرے میں گھری ہوئی عام آبادی کی نیند پر تحقیق پہلے کبھی اس طرح نہیں کی گئی۔‘

9 ہزار افراد پر مشتمل تحقیق

جنوری 2023 سے جنوری 2024 کے دوران کیے گئے تین مختلف سروے میں 9 ہزار افراد کی نیند کے معمولات کا تجزیہ کیا گیا، جن کے نتائج کے مطابق، 6 گھنٹے سے کم سونے والے افراد کا تناسب 13 فیصد سے بڑھ کر 31 فیصد ہوگیا جبکہ نیند کی عمومی خراب صحت کی شکایات 15 فیصد سے بڑھ کر 38 فیصد تک پہنچ گئیں۔

کلینیکل انسومنیا یعنی بےخوابی کے کیسز 4 فیصد سے بڑھ کر 20 فیصد ہوگئے، 48 فیصد افراد نے جنگ کے آغاز کے بعد نیند کے مسائل کی شکایت کی، جو کہ پہلے 18 فیصد تھے۔

پروفیسر چوشن ہلیل نے بتایا کہ ہمارے لیے سب سے چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ ڈیڑھ سال گزر جانے کے باوجود نیند میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ ’یہ عارضی مسئلہ نہیں بلکہ ایک طویل المدتی صحت کا بحران ہے۔‘

خواتین اور متاثرہ خاندان سب سے زیادہ متاثر

تحقیق کے مطابق خواتین سمیت وہ افراد جن کے عزیز و اقارب 7 اکتوبر کے حملوں میں مارے گئے، زخمی ہوئے یا اغوا کیے گئے، ان سب پر سب سے زیادہ منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

چوشن ہلیل کے مطابق ایران کے ساتھ حالیہ جنگ اور اس کے پھیلاؤ کے خدشات نے شہریوں کی نیند کی حالت کو مزید خراب کر دیا ہے، لوگ ہر رات کئی بار شیلٹر کی طرف بھاگنے پر مجبور ہوتے ہیں، اور اس کے نتیجے میں ان کی بے چینی اور خوف مزید بڑھ گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ اثرات صرف اُن علاقوں تک محدود نہیں جہاں حملے ہوتے ہیں بلکہ دور دراز علاقوں کے لوگ بھی نفسیاتی طور پر شدید متاثر ہیں۔

ایرانی حملے میں اسپتال متاثر، درجنوں زخمی

ایرانی میزائل حملے میں جمعرات کے روز جنوبی اسرائیل کے شہر بیرشیوا میں سوروکا میڈیکل سینٹر کو بھی نشانہ بنایا گیا، جہاں اس وقت 400 مریض زیرِ علاج تھے۔

اس واقعے میں 80 افراد زخمی ہوئے، جن میں نصف اسپتال کا عملہ تھا۔ اسپتال کے مطابق زیادہ تر زخمیوں کو معمولی چوٹیں یا ذہنی دباؤ کی علامات لاحق ہوئیں۔

ایرانی حملوں میں اب تک 24 اسرائیلی شہری ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ ایک شخص لاپتا ہے، دوسری جانب، ایرانی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے حملوں میں 639 ایرانی شہری شہید ہو چکے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp