ایرانی جوہری تنصیبات پر امریکا کے حملے کے بعد ایرانی وزیر خارجہ عباس عراغچی نے کہا ہے کہ وہ روسی صدر ویلادیمیر پوٹن سے ‘سنجیدہ مشاورت’ کے لیے ماسکو جا رہے ہیں۔
ایرانی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ وہ آج ماسکو جائیں گے اور پیر کو روسی صدر ولادیمیر پوتین کے ساتھ ملاقات کریں گے۔
یہ بھی پڑھیے: ’اب 2 ہی راستے ہیں امن یا شدید تباہی‘، ٹرمپ نے ایران پر حملوں کے بعد قوم سے خطاب میں کیا کچھ کہا؟
انہوں نے استنبول میں نیوز کانفرنس کے دوران کہا، ‘روس ایران کا دوست ہے اور ہم ایک اسٹریٹجک شراکت داری سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔’
ان کا کہنا تھا کہ میں کل روسی صدر کے ساتھ سنجیدہ مشورے کروں گا اور ہم ایک دوسرے کے ساتھ کام جاری رکھیں گے۔
ایرانی وزیر خارجہ نے واضح کردیا کہ ایران اور روس ہمیشہ ایک دوسرے سے مشورہ کرتے ہیں اور اپنی موقف کو ہم آہنگ کرتے ہیں۔
اس سے قبل ایرانی وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے اتوار کو استنبول میں پریس کانفرنس سے خطاب میں کہا ہے کہ ایران جنگ نہیں چاہتا، لیکن اگر اس کی خودمختاری، قومی سلامتی یا شہریوں پر حملہ کیا جاتا ہے، تو ایران کو اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کے تحت اپنے دفاع کا پورا حق حاصل ہے۔
یہ بھی پڑھیے: ایران پر حملوں میں شراکت نہ اجازت اور نہ ہی سہولت دی گئی، پاکستان
انہوں نے پریس کانفرنس میں امریکا کی جانب سے ایرانی جوہری تنصیبات پر کیے گئے حملے کو اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے (NPT) کی صریح خلاف ورزی قرار دیا اور کہا کہ یہ عمل نہ صرف بین الاقوامی قانون کی سنگین خلاف ورزی ہے بلکہ پوری عالمی برادری کے لیے خطرے کی گھنٹی بھی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایران اپنی خودمختاری، مفادات اور عوام کے دفاع کے لیے تمام آپشنز محفوظ رکھتا ہے۔
وزیر خارجہ نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ اگر امریکا نے اپنی مداخلت جاری رکھی تو اس کے دیرپا اور انتہائی سنگین نتائج برآمد ہوں گے، جو نہ صرف ایران بلکہ پورے مشرقِ وسطیٰ میں مزید عدم استحکام کو جنم دیں گے۔
عراقچی نے اس بات پر زور دیا کہ موجودہ حالات ایران صرف اس صورت میں مذاکرات کی میز پر واپس آئے گا جب اسرائیل اپنی جارحیت بند کرے گا اور امریکا اپنے حملوں پر نظر ثانی کرے گا۔
یہ بھی پڑھیے: ایران اسرائیل تصادم: دنیا کے سر پر تیسری جنگ عظیم کا خطرہ منڈلا رہا ہے؟
ان کے الفاظ میں ہم مذاکرات پر یقین رکھتے ہیں، لیکن ایسے مذاکرات جو برابری کی سطح پر ہوں اور دھونس یا حملوں کے سائے میں نہ ہوں۔
انہوں نے عالمی اداروں بالخصوص اقوامِ متحدہ اور سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا کہ وہ اس بین الاقوامی جارحیت کا فوری نوٹس لیں اور ایسی کارروائیوں کے خلاف ٹھوس موقف اپنائیں تاکہ بین الاقوامی قانون کی عملداری قائم رہ سکے۔