وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ فوجی تنصیبات پر تیل چھڑک کے آگ لگانے پر معافی دینے کا اختیار میرے پاس نہیں، ہم قانون کے پابند ہیں، اپوزیشن کو بھی قانون کا پابند کیا جائے،میرے پاس فوجی تنصیبات کو آگ لگانے اور اربوں کی کرپشن معاف کرنے کا اختیار ہوتا تو میں یہ کرتا۔
قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیرقانون نے کہا کہ فوجی تنصیبات پر تیل چھڑک کے آگ لگانے پر معافی دینے کا اختیار میرے پاس نہیں، اگر یہ اختیار میرے پاس ہوتا تو میں ضرور معافی دیتا، اپوزیشن والے میرے بھائی ہیں، کاش جیلز کو ڈائریکٹ کرنے کا اختیار سیکریٹری ہیومین رائٹس کے پاس ہوتا کہ یار آج ان کی ملاقات کروا دے اور میاں بیوی کو بھی اکٹھے سلایا جائے، تو میں یہ ضرور کرتا، میرے پاس یہ اختیار نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: آئینی عدالتیں شاہی دربار نہیں، جو ججز کیسز نہیں سن سکتے گھر چلے جائیں: اعظم نذیر تارڑ
وزیرقانون نے کہا کہ کاش میرے پاس چیئرمین نیب اور ڈائریکٹر اینٹی کرپشن کو یہ کہنے کا اختیار ہوتا کہ زیادتی کرو، مٹی پاؤ، معاف کردو، آپ میرے بھائی ہیں، تو میں ضرور کرتا لیکن میرے پاس یہ اختیار نہیں ہے، کاش میرے پاس یہ اختیار ہوتا بلکہ میں نے یہ اختیار استعمال ہوتے دیکھا ہوتا کہ آپ الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ کے فیصلے خود ہی طے کرلیتا، میری بہن شیریں مزاری نے الیکشن 2018 کے الیکشن کے بعد چوک میں عدالت لگا کے ڈسکوالیفائی اور کوالیفائی کیا ہوتا تو شاید میں بھی یہ کرلیتا لیکن میرے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں ہے، میں ایک عاجز آدمی ہوں۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اپوزیشن کا مسئلہ یہ ہے کہ اپوزیشن لیڈر نے ویڈیو بناکے اڈیالہ بھیجنی ہوتی ہے کہ اس نے گالی دی ہے اس نے نہیں دی، اس نے چیخیں ماری ہیں اس نے نہیں ماری، اس نے یہ کہا ہے اس نے یہ نہیں کہا، اپوزیشن والے کتابیں ماریں، پہلے اسپیکر جلادیے تھے، آج دل جلائیں۔
یہ بھی پڑھیں: وفاقی وزیرقانون نے پیکا ترمیمی بل پر نظرثانی کا عندیہ دے دیا
انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کی جانب سے یہ کہا جارہا ہے کہ نفرت کے بیج بوئے جارہے ہیں، نفرت کے بیج نہیں بوئے جارہے، ہم نے تو نفرت کے بیجوں کے چھٹے دیتے ہوئے دیکھا ہے انہی ہاتھوں کو، کہا جارہا ہے کہ ابھی ہماری باری ہے پھر باری بدلے گی، تاریخ گواہ ہے کہ ہم نے یہ باریاں دی ہیں، ہم نے باریاں 1970 سے دینی شروع کی ہیں جب یہ لوگ آمروں کی گود میں فیڈر پیا کرتے تھے۔
وزیرقانون نے کہا کہ ہمارے لیڈروں میں سے ذوالفقار علی بھٹو نے تختہ دار پر نعرہ حق کہا ہے، میاں نواز شریف کو اپوزیشن کے فیورٹس نے جعلی کیس میں عمر قید کی سزا سنادی، جن کی کابینہ کا یہ حصہ تھے، چادر اور چار دیواری کی بات کی جارہی ہے، مریم نواز کے کمرے کا دروازہ توڑ کر چادر اور چار دیواری پامال نہیں ہوتی، فریال تالپور کو اسپتال سے کھینچ کے جیل پہنچایا جائے تو چادر و چار دیواری کی پامالی نہیں ہوتی، چادر چار دیواری کی پامالی تب ہوتی ہے جب ان پہ بات آتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم نے اپوزیشن کے منہ میں گیدڑ کی زبان ڈال دی، وزیرقانون
انہوں نے کہا کہ اپوزیشن قانون کے مطابق بات کرے، پوچھیں حنیف عباسی، رانا ثناللہ، احسن اقبال، خورشید شاہ، وزیراعظم شہباز شریف، حمزہ شہباز، مریم نواز شریف سے، ہم قانون کے تابع ہیں ، قانون کے مطابق چلیں گے، اپوزیشن کو بھی قانون کا پابند کیا جائے کہ قانون کے مطابق بات کرے۔
اعظم نذیر تارڑ نے انسانی حقوق سے متعلق کٹ موشن پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہیں توقع تھی کہ ایوان میں انسانی حقوق کے بجٹ پر مثبت تجاویز پیش کی جائیں گی، لیکن بدقسمتی سے زیادہ تر گفتگو شکایات اور سیاسی بیانیے پر مبنی تھی۔ انہوں نے قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے بتایا کہ تاریخ میں پہلی بار اس ادارے کو عالمی سطح پر ’A‘ اسٹیٹس حاصل ہوا ہے۔ یہ درجہ بندی حکومتِ پاکستان نے نہیں دی بلکہ بین الاقوامی اداروں کے ایک کلسٹر نے دی ہے۔ انہوں نے طنزیہ انداز میں کہا کہ اگر کوئی تقابل کرنا چاہے تو ہمارا پڑوسی ملک، جس کا ہم نے گزشتہ ماہ جواب دیا، اسی جائزے میں’C‘ درجہ حاصل کر پایا ہے۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ حالیہ مہینوں اور برسوں میں پارلیمنٹ کی جانب سے کئی اہم قوانین منظور کیے گئے، جیسے چائلڈ میریج ری اسٹرینٹ ایکٹ، خواتین کو ہراسانی سے تحفظ دینے والے قوانین، کرسچین میرج ایکٹ، اور انسدادِ زیادتی تحقیقاتی ضوابط۔ ان کا کہنا تھا کہ ان اقدامات کو سراہا جانا چاہیے تھا اور وزارت انسانی حقوق کے بجٹ میں اضافے کی سفارش کی جانی چاہیے تھی، لیکن بدقسمتی سے بحث کو سیاسی رنگ دے دیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کی بین الاقوامی انسانی حقوق کے طریقہ کار سے وابستگی غیر متزلزل ہے، اعظم نذیر تارڑ کا اقوامِ متحدہ میں خطاب
انہوں نے اپوزیشن کے اندازِ گفتگو پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بعض باتیں اس انداز میں کی جاتی ہیں جنہیں بعد میں واپس لینا پڑتا ہے۔ انہوں نے رکن اسمبلی رضا حیات ہراج کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے دل سے بات کی اور بعد میں معذرت کرنا پڑی، اس لیے ایسی گفتگو سے گریز کیا جائے جس پر بعد میں پچھتانا پڑے۔
انہوں نے قائمہ کمیٹیوں کے کردار پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کمیٹیوں کا کام پارلیمانی نگرانی ہے، نہ کہ جیلوں میں ملاقاتیں کروانا، کرپشن مقدمات میں ضمانت دلوانا یا پولیس تفتیش میں مداخلت کرنا۔ انہوں نے کہا کہ قائمہ کمیٹیوں کو اختیار نہیں کہ وہ جیلوں کے دورے کرکے قیدیوں کو آپس میں ملائیں یا پولیس کو کسی کیس میں مخصوص سمت اختیار کرنے کا حکم دیں۔
انہوں نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بعض لوگ کمیٹیوں کے ذریعے ایسے ایجنڈے منظور کروانا چاہتے ہیں جو سراسر قواعد سے ہٹ کر ہیں۔ اگر کمیٹی کے ایجنڈے میں صفحہ نمبر 1 سے 70 تک صرف قیدی نمبر 804 کا ذکر ہو تو اسمبلی سیکریٹریٹ بھی کچھ نہیں کر سکتا۔