کینیا میں گزشتہ روز حکومت مخالف مظاہروں کے دوران کم از کم 16 افراد ہلاک ہو گئے۔ انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق زیادہ تر اموات پولیس فائرنگ کا نتیجہ ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:کینیا کا گوتم اڈانی کی کمپنی سے ملٹی ملین ڈالرز کے ٹھیکے منسوخ کرنے کا اعلان
یہ احتجاج ایک مقبول بلاگر کی پولیس کی حراست میں پراسرار موت کے بعد بھڑکا تھا، جبکہ یہ واقعہ 2024 کے ان خونریز مظاہروں کی برسی کے موقع پر پیش آیا جب ٹیکس بل کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے 60 افراد مارے گئے تھے۔
نیروبی میں کشیدہ صورتحال
دارالحکومت نیروبی کے مرکزی کاروباری علاقے میں ہزاروں نوجوانوں نے پولیس بربریت اور حکومتی نااہلی کے خلاف مظاہرہ کیا۔ پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں جس میں ربر بلیٹس اور لائیو فائرنگ کی اطلاعات ہیں۔
کینیاٹا نیشنل اسپتال کے ایک عہدیدار کے مطابق اسپتال میں 107 زخمیوں کو داخل کیا گیا جن میں سے زیادہ تر کو گولی لگی تھی۔
میڈیا پر پابندی اور حکومتی ردعمل
کمیونیکیشن اتھارٹی آف کینیا نے میڈیا کو احتجاج کی لائیو کوریج روکنے کا حکم دیا۔ صدر ولیم روتو نے تشدد کو روکنے کی دھمکی دی ہے۔ تاہم، انسانی حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال کے مظاہروں میں ملوث پولیس اہلکاروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔
عوامی غم و غصہ
سوشل میڈیا پر نوجوانوں نے احتجاجی تحریک کو سپورٹ کیا اور حکومتی پالیسیوں کے خلاف میمز شیئر کیں۔
یہ بھی پڑھیں:لندن میراتھن میں 40 پاکستانیوں کی شرکت، کینیا کے سیباسشین ساوے فاتح قرار پائے
مظاہرے میں شامل ایک شخص سولینا موہاکی کا کہنا تھا کہ ’بس کافی ہو چکا، اب تبدیلی کا وقت آ گیا ہے۔ ہم نے جو خون بہایا ہے وہ کافی ہے‘۔
معاشی بحران اور سیاسی تنقید
ماہرین کا کہنا ہے کہ بے روزگاری اور مہنگائی عوامی غصے کی بڑی وجوہات ہیں۔صدر روتو پر اسراف اور کرپشن کے الزامات لگائے گئے ہیں، جبکہ اپوزیشن کو بھی کمزور موقف کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
صورتحال کے پیش نظر خدشات ہیں کہ اگر حکومت نوجوانوں کے مطالبات پر سنجیدگی سے توجہ نہیں دیتی تو حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔