گزشتہ روز صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے سپریم کورٹ آئینی بینچ کے 19 جون کے فیصلے کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی سینیارٹی کا تعین کردیا جس میں لاہور ہائیکورٹ سے ٹرانسفر ہوکر اسلام آباد ہائیکورٹ آنے والے اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس، جسٹس سرفراز ڈوگر کو سینیئر ترین جج قرار دیا گیا۔
صدارتی نوٹیفیکیشن کے مطابق جسٹس سرفراز ڈوگر جسٹس خادم حسین سومرو اور جسٹس محمد آصف کا اسلام آباد ہائیکورٹ میں مستقل تبادلہ کردیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ کا مستقل چیف جسٹس کون ہوگا؟ فیصلہ جوڈیشل کمیشن کرے گا
سینیئر وکلا کے مطابق قانون میں دی گئی گنجائش کا غلط استعمال کیا گیا ہے اور اب ججز کی سینیارٹی کو لے کر غیر یقینی صورتحال برقرار رہا کرے گی۔
گزشتہ روز جاری ہونے والے صدارتی نوٹیفیکیشن کے مطابق جسٹس سرفراز ڈوگر اسلام آباد ہائیکورٹ کے سب سے سینیئر جج قرار دیے گئے ہیں۔ جبکہ جسٹس محسن اختر کیانی سیینارٹی میں دوسرے نمبر پر ہیں، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کا سینیارٹی میں تیسرا، جسٹس طارق محمود جہانگیری چوتھے، جسٹس بابر ستار پانچویں نمبر پر ہیں۔
صدر مملکت نے سپریم کورٹ فیصلے کی روشنی میں ججز کی سینیارٹی طے کی۔ سپریم کورٹ نے سروس ریکارڈ دیکھ کر سینیارٹی طے کرنے کا حکم دیا تھا جس کے بعد صدر مملکت کی منظوری سے وزارت قانون و انصاف نے نوٹیفکیشن جاری کیا، جبکہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے مستقل چیف جسٹس کی تعیناتی کے لیے جوڈیشل کمیشن کا اجلاس یکم جولائی کو ہوگا جس میں 3 سینیئر ججز کے ناموں پر غور کیا جائےگا۔ جن میں جسٹس سرفراز ڈوگر، جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب شامل ہوں گے۔
ججز ٹرانسفر سے متعلق موجود قانون کا غلط فائدہ اُٹھایا گیا: کامران مرتضٰی
جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سینیٹر اور سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل کامران مُرتضٰی نے ’وی نیوز‘ نے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ صدر مملکت کی جانب سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز کی ٹرانسفر اور اُن کی سینیارٹی کا طے کیا جانا ایک ایسی چیز ہے جو بظاہر درست نہیں اور غیر مناسب ہے۔
انہوں نے کہاکہ ججز ٹرانسفر سے متعلق قانون کا غلط فائدہ اُٹھایا گیا ہے اور اب ایک ایسی صورتحال پیدا ہوگئی ہے کہ ججز کی سینیارٹی کبھی بھی تبدیل ہو سکتی ہے، اب کوئی جج سینیارٹی کی بنیاد پر اپنے ادارے کا سربراہ نہیں بن سکے گا بلکہ سینیارٹی کو لے کر ایک غیر یقینی صورتحال درپیش رہا کرے گی۔
اُنہوں نے کہاکہ صدرِ مملکت کی جانب سے جاری اس سینیارٹی لسٹ کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا تاہم سپریم کورٹ کی جانب سے جاری اُس بنیادی حکمنامے کو چیلنج کیا جا سکتا ہے جس کی رو سے یہ سینیارٹی لسٹ جاری کی گئی ہے۔
جس فارمولا کے تحت سینیارٹی طے کی گئی وہ فارمولہ غلط ہے، بیرسٹر علی ظفر
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر بیرسٹر علی ظفر نے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہاکہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ ایک جج کو ایک جگہ سے اُٹھا کر دوسری جگہ لے جا کر سینیئر بنا دیں۔ صدرِ مملکت نے تو فیصلہ سپریم کورٹ کے فارمولا کے مطابق جاری کیا ہے لیکن بنیادی طور پر وہ فارمولا غلط ہے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہاکہ نظرِثانی اپیل میں اگر بنیادی فیصلہ تبدیل ہو جائے تو یہ سینیارٹی لسٹ تبدیل ہو سکتی ہے۔ یہ فیصلہ تین دو کی اکثریت سے آیا تھا، اس لیے چانسز ہیں کہ اگر ایک جج بھی دوسری طرف چلا جائے تو فیصلہ تبدیل ہو سکتا ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے پانچ ججز نے اس فیصلے کے خلاف نظرِثانی اپیل دائر کردی ہے اور دیکھیں کیا فیصلہ آتا ہے، لیکن میں اس فیصلے سے اتفاق نہیں کرتا۔
ججز ٹرانسفر میں صدرِ مملکت کا کردار محض رسمی ہوتا ہے: حسن رضا پاشا
پاکستان بار کونسل ایگزیکٹو کمیٹی کے سابق چیئرمین حسن رضا پاشا نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ججز کی سینیارٹی کا تعین اُن کی ہائیکورٹ میں تعیناتی سے کیا گیا ہے تو بالکل درست ہے، کیونکہ ہائیکورٹ ججز کی ٹرانسفر کے لیے متعلقہ آرٹیکل 200 میں لفظ ٹرانسفر استعمال کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر ایک ڈپـٹی کمشنر ٹرانسفر ہوکر کسی دوسرے علاقے میں جاتا ہے تو وہ ڈپٹی کمشنر ہی لگے گا نہ کہ اسسٹنٹ کمشنر۔
یہ بھی پڑھیں: جسٹس اعجاز سواتی بلوچستان ہائیکورٹ کے مستقل چیف جسٹس ہوں گے، جوڈیشل کمیشن کی منظوری
ججز ٹرانسفر کی وجہ سے آئندہ سینیارٹی کے حوالے سے غیر یقینی صورتحال کے بارے میں بات کرتے ہوئے حسن رضا پاشا نے کہاکہ ججز ٹرانسفر میں صدرِ مملکت کا کردار صرف رسمی ہے۔ اصل میں چیف جسٹس سپریم کورٹ، جس ہائیکورٹ سے جج کی ٹرانسفر کی جائے اُس ہائی کورٹ کے چیف جسٹس، جس ہائیکورٹ میں ٹرانسفر کی جائے اُس کا چیف اور ٹرانسفر ہونے والے جج کے درمیان باقاعدہ اور بامعنی مشاورت سے یہ عمل مکمل ہوتا ہے، صدرِ مملکت کے رسمی کردار کو لوگ صرفِ نظر کر رہے ہیں اور سارا الزام حکومت کو دے رہے ہیں۔