یہ زمانہ روشنیوں کا ہے۔ اسکرینز کی جگمگاہٹ، نوٹیفکیشن کی چمک، اور ہر وقت کسی نہ کسی سے ’کنیکٹڈ‘ ہونے کا فریب دیتی دنیا۔ ہم رابطوں کی ایسی طلسماتی دنیا میں جی رہے ہیں جہاں فاصلے مٹ چکے ہیں، آوازیں لمحوں میں سرحدیں پار کرلیتی ہیں، اور وڈیو کالز پر آنکھوں کے اشارے دھڑکنوں سے جُڑ جاتے ہیں۔ پھر بھی ۔ ۔ ۔ یہ کیسا دور ہے کہ جتنا قریب آتے جا رہے ہیں، اتنا ہی تنہا ہوتے جا رہے ہیں؟
ٹیکنالوجی کے شور میں ہم ہر لمحے کسی نہ کسی سے جُڑے ہوئے محسوس کرتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس ڈیجیٹل چمک نے انسانوں کے بیچ ایک ایسی تاریکی بھر دی ہے جو ماضی میں تنہا پہاڑوں یا سنسان گلیوں میں ہوا کرتی تھی۔ ہم نے تعلق کو لمحاتی پیغامات،GIFs اور ایموجیز میں ناپنا سیکھ لیا ہے اور یوں ایک ایسا خلا پیدا ہو چکا ہے جسے نہ کوئی ایپ پُر کر سکتی ہے، نہ کوئی اسکرین۔
عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی تازہ رپورٹ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ دنیا کا ہر چھٹا انسان کسی نہ کسی شکل میں تنہائی کا شکار ہے۔ اور یہ کوئی معمولی احساسِ محرومی نہیں بلکہ ایک خاموش وبا ہے، جو ہر گھنٹے 100 انسانوں کو زندگی کی ڈور سے کاٹ دیتی ہے۔
یہ تحریر محض ایک رپورٹ کا خلاصہ نہیں، بلکہ ایک آئینہ ہے جو ہمیں ہمارا اپنا عکس دکھاتا ہے۔ اسمارٹ فونز، سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل دنیا میں گم ہوتے وجود کا عکس۔
ہم نے واٹس ایپ گروپس بنائے، فالوورز بڑھائے، انسٹاگرام پر تصویریں پوسٹ کیں، لیکن رات کے آخری پہر تنہائی کا عفریت چپکے سے ہمیں آن گھیرتا ہے۔ چیٹ باکسز بھرے ہوتے ہیں، مگر دل کے خانے خالی۔ سوال یہ نہیں کہ ہم کس سے بات کر رہے ہیں، سوال یہ ہے کہ کس کے ساتھ دل کی بات کر رہے ہیں؟
رپورٹ بتاتی ہے کہ تنہائی ہر عمر کو متاثر کرتی ہے، مگر سب سے زیادہ متاثر نوجوان ہیں۔ وہی نسل جو ٹیکنالوجی سے سب سے زیادہ قریب ہے۔ کیا ہم نے تعلق کو اس حد تک ٹیکنالوجی میں تلاش کیا کہ تعلق کا اصل مفہوم کھو دیا؟
مزید پڑھیں: تنہائی ہر گھنٹے 100 جانیں نگل جاتی ہے، عالمی ادارہ صحت کی چونکا دینے والی رپورٹ
سوشل میڈیا کی رنگینی کے پیچھے ایک گہرا اندھیرا ہے۔ اسکرولنگ کی لت، ورچوئل مقبولیت کی دوڑ، اور ریئل لائف سے بیزاری۔ ہم نے ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا ہے جہاں لوگ سینکڑوں دوستوں کے باوجود ایک سچے ہم دم کو ترس رہے ہیں۔
ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ ایک اور پہلو بھی واضح کرتی ہے کہ تنہائی صرف جذباتی کیفیت نہیں، بلکہ ایک جسمانی بیماری بھی ہے۔ یہ فالج، دل کے امراض، ذہنی زوال، اور قبل از وقت موت کا باعث بن سکتی ہے۔ کبھی کبھی انسان کو جسمانی زخموں سے زیادہ تنہا شاموں کا دکھ کھا جاتا ہے۔
اگر مسئلہ محض ٹیکنالوجی نہیں تو حل بھی صرف ڈیجیٹل ڈیٹاکس (Digital Detox) نہیں ہو سکتا۔ ہمیں رشتے نبھانے، وقت دینے اور سننے سنانے کا فن دوبارہ سیکھنا ہوگا۔ اسکرین پر رابطہ ہونا، دل کا تعلق ہونے کے برابر نہیں۔ اور اصل رابطہ وہ ہوتا ہے جس میں خامشی بھی معنی رکھتی ہو۔
ہمیں چاہیے کہ ڈیجیٹل دنیا میں جیتے ہوئے بھی حقیقی انسانوں کے ساتھ جینا سیکھیں۔ انسٹاگرام لائیکس یا واٹس ایپ اسٹیٹس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ کسی کی آنکھوں میں دیکھ کر مسکرایا جائے، کسی کی آواز سُن کر اس کا درد بانٹا جائے، اور کسی خاموش دل کو اپنا وقت دیا جائے۔
یہ مسئلہ صرف مغرب تک محدود نہیں۔ پاکستانی معاشرہ جہاں خاندانی نظام، مذہبی رشتے اور سماجی میل جول ہمیشہ سے مضبوط رہا ہے، اب تیزی سے ڈیجیٹل تنہائی کا شکار ہو رہا ہے۔ دیہی اور شہری نوجوان، جو پہلے بزرگوں، ہمسایوں اور ’چوپال‘ سے جُڑے ہوتے تھے، اب اسکرینز کے پیچھے ایک الگ دنیا میں قید ہوچکے ہیں۔ کچھ کی تنہائی اضطراب میں، کچھ کا سکون ’سوشل میڈیا ایڈکشن‘ میں بدل چکا ہے۔
وقت ہے کہ ہم ٹیکنالوجی کی روشنی سے دھوکا نہ کھائیں بلکہ اسے رابطوں کی حرارت میں بدلیں۔ ورنہ ایک دن ایسا آئے گا کہ ہر نوجوان کے ہاتھ میں فون تو ہوگا، لیکن دل میں صرف ایک سوال! کیا کوئی واقعی میرے ساتھ ہے؟ قومیں ٹیکنالوجی سے نہیں، رشتوں سے زندہ رہتی ہیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔