خیبر پختونخوا حکومت بدلنی ہے یا گھسیٹنی ہے؟

بدھ 9 جولائی 2025
author image

وسی بابا

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

خیبر پختونخوا میں سینیٹ کی 11 نشستوں کے لیے الیکشن 21 جولائی کو ہونے ہیں۔ مخصوص نشستوں کا فیصلہ آنے کے بعد اب یہ الیکشن ہو رہے ہیں۔ یہ الیکشن صوبے میں پارٹی پوزیشن بتانے کا سب سے اچھا ٹیسٹ ہونگے۔ سینیٹ الیکشن میں ممبران اسمبلی اپنی دہاڑیاں لگانے کو نتائج ہر بار اوپر نیچے کر کے رکھ دیتے ہیں۔

مولانا فضل الرحمان اور ایمل ولی خان صوبے میں حکومت ہٹانے کی کسی مہم کا حصہ بننے سے انکار کر چکے ہیں۔ اس کے بعد جس کو بھی یہ خیال آ رہا ہے اس کو سکون کر جانا چاہیے۔ لیکن یہ لڑکے ٹلتے دکھائی نہیں دیتے۔ مولانا فضل الرحمان اور ان کی جماعت کو موجودہ یا آئندہ کسی سیٹ اپ میں صوبائی حکومت کا تاج یا تخت ملنے کا امکان نہیں ہے۔

ایسا سمجھنے کی وجہ خود مولانا اور ان کے بیانات ہیں۔ مولانا کو یہ چھوڑیں اگلی اسمبلی سے بھی حکومت ملنے کا کوئی خدشہ لاحق ہوتا تو وہ ایسے ڈانٹ ڈپٹ کرتے بیانات نہ دے رہے ہوتے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے اس وقت مولانا کو اپنے صرف ایک علاقائی حریف علی امین گنڈا پور کا سامنا ہے۔ حکومت تبدیلی کی صورت میں گورنر فیصل کریم کنڈی کے علاوہ فتح اللہ میاںخیل بھی کپتان والے خطرے ناک ہو سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ریجنل پاور کے طور پر سرگرم ہوتا پاکستان اب اپنا گھر ٹھیک کرے

علی امین گنڈا پور کے علاوہ مولانا فیصل کریم کنڈی اور ڈیرہ سے ہی پی پی کے موجودہ ایم این اے فتح اللہ میانخیل کے بڑے بھائی عمر فاروق میانخیل سے بھی سنہ 1996 میں الیکشن ہار چکے ہیں۔ مولانا وفاقی سیاست کرتے ہیں جبکہ ان کے یہ سارے حریف مقامی سیاست پر ہی فوکس رہتے ہیں۔

جتھے رولا ہوسی اوتھے ڈھولا ہوسی۔ جہاں مامتا وہاں ڈالڈا، ان سائنسی اصولوں کے تحت جب جب خیبر پختونخوا میں سینیٹ الیکشن ہوگا۔ ممبران کا دل رسی تڑوا کر بکنے کو کرے گا۔ پی پی بانہیں کھول کر ان کو گلے لگانے کو تیار کھڑی ملے گی۔ اس سب کے ساتھ اب دھیان میں لائیں کہ گورنر کا تعلق بھی پی پی سے ہے۔

موجودہ اتحادی حکومت تشکیل دیتے وقت پاور شیئرنگ فارمولا بھی بنا۔ پی پی کو آئینی عہدے اور دو صوبوں کی حکومت ملی، بلوچستان میں مسلم لیگ نون کے پاس بھی اتنے ممبران اسمبلی تھے کہ وہ بھاگ دوڑ کر حکومت بنا سکتی تھی۔ اس فارمولے میں یہ لازمی طے کیا گیا ہو گا کہ جب بھی کے پی حکومت تبدیل ہوئی تو وزارت اعلیٰ کس کی ہو گی۔ اپنا اندازہ ہے کہ یہ مسلم لیگ نون کو دینے کا فیصلہ ہوا ہو گا۔

مزید پڑھیے: ایران-اسرائیل جنگ بندی کیوں اور کیسے ہوئی؟

آج کل صدر صاحب کے استعفے کی خبریں گرم ہیں۔ ان خبروں کو کے پی میں پی پی کی سرگرمیوں سے جوڑ کر دیکھیں تو کچھ کچھ سمجھ آئے گا کہ یہ خبریں کیوں آ رہی ہیں۔ آصف زرداری گنجائش بنے تو سیاسی پیشرفت کرنے میں پہلے کرنے سے گریز اور دیر نہیں کرتے۔ سپریم کورٹ سے مخصوص نشستوں کا فیصلہ آنے کے بعد نمبر گیم تبدیل ہو گئی ہے۔

بظاہر حکومتی اتحاد کو اب ’2 تباہی‘ اکثریت حاصل ہو گئی ہے۔ سیاستدانوں کی جب طاقت بڑھتی ہے تو ان کا موڈ بدلتا ہے اور ایڈونچر کرنے کو مچلنے لگتے ہیں۔ آنے والے ہفتوں میں 9 مئی ملزمان کو سزائیں سنانے کا عدالتی عمل شروع ہو جائے گا۔ الحمدللہ صوبائی اسمبلی کے 2 تہائی ممبران پر مقدمات درج ہیں۔ زیادہ تر مقدمات تو اتنے مزاحیہ ہیں کہ عدالت کے جذبات ہوتے تو مقدمہ بنانے والے کو ہی لما لٹا لیتی۔

کچھ مقدمات ایسے ہیں جن میں ممبران کو سزائیں ہو سکتی ہیں جس کے نتیجے میں وہ نااہل ہو سکتے ہیں۔ اس نااہلی کو پکا کرنے کے لیے سپریم کورٹ تک جانے کا طویل راستہ طے کرنا بھی ضروری ہے۔ ممبران کی بڑی تعداد میں نااہلی کی صورت میں گورنر وزیر اعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کو کہہ سکتے ہیں۔ تب رونق لگ جائے گی۔

خیبر پختونخوا حکومت کو تبدیل کرنے کی ایک ہی وجہ سمجھ آتی ہے۔ اس حکومت اور انداز حکومت کے ساتھ صوبے میں امن و امان کی صورتحال بالکل ٹھیک نہیں ہو سکتی۔ عسکریت پسندی کنٹول کرنے کے لیے مؤثر صوبائی انتظامیہ اور متحرک وزیر اعلیٰ کی ضرورت ہے۔ جو انتظامیہ کو چابی دینے کے علاوہ ریلیف کا کام بھی تیزی سے کرا سکے۔

بطور وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور کے پاس بہت سے آپشن ہیں۔ وہ اپنے خلاف عدم اعتماد کا مؤثر انداز میں سامنا کر سکتے ہیں۔ اپنی وزارت اعلیٰ کو لمبا کھینچ سکتے ہیں۔ لڑائی بڑھے گی جس کا ایک لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کے صوبائی حکومت اپنا روٹین کا بزنس (سیاسی کام) نہیں کر سکے گی اور لوگوں کے کام بھی رک جائیں گے۔

مزید پڑھیں: جنگ کی قیمت کمر توڑ دیتی ہے

یہ صوبے کی پرانی سیاسی جماعتوں کے لیے آئیڈیل صورتحال ہو گی کہ پی ٹی آئی حکومت اپنے ہی بوجھ کے نیچے دبنا شروع ہو جائے۔ ادھر بس سوال ایک ہی ہے کہ اگر خود علی امین گنڈا پور ہی 9 مئی کے کسی کیس میں نااہل ہو گئے تو پھر؟۔ اب دیکھتے ہیں کہ صوبائی حکومت کو تبدیل کرنے والوں کا زور چلتا ہے یا اس حکومت کو گھسیٹنے والوں کے دل کو ٹھنڈ پڑتی ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp