سپریم کورٹ نے قتل کے ایک مقدمے میں پولیس کی غفلت اور آئینی خلاف ورزی پر سخت ریمارکس دیتے ہوئے ملزم سیتا رام کی بریت کی اپیل منظور کر لی۔ اس موقع پر عدالت نے یہ بھی ریمارکس دیے کہ ہمیں پولیس اسٹیٹ سے نکل کر آئینی ریاست کی طرف جانا ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں:سپریم کورٹ نے پی ٹی سی ایل ملازمین پینشن کیس پر اہم فیصلہ سنا دیا
جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ نے شک کا فائدہ دیتے ہوئے ملزم سیتا رام کو بری کر دیا۔ سیتا رام پر چندر کمار کے قتل کا الزام تھا، جو 18 اگست 2018 کو پیش آیا تھا۔
عدالت کو بتایا گیا کہ مدعی ڈاکٹر انیل کمار نے فوری طور پر پولیس کو اطلاع دی، تاہم ایف آئی آر 2 دن بعد درج کی گئی۔ ایس ایچ او قربان علی نے تسلیم کیا کہ واقعہ کی اطلاع ڈائری میں درج کی گئی لیکن قانون کے مطابق دفعہ 154 کے تحت ایف آئی آر درج نہ کی گئی۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ پولیس کی جانب سے ایف آئی آر درج نہ کرنا آئین کی خلاف ورزی ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ ایف آئی آر میں تاخیر انصاف کی نفی ہے اور سندھ میں اس تاخیر کا رجحان انتہائی تشویشناک ہے۔
یہ بھی پڑھیں:گھریلو تنازعات میں مالی معاوضے سے متعلق کیسز سپریم کورٹ نہیں آنے چاہییں، چیف جسٹس یحییٰ آفریدی
عدالت کا کہنا تھا کہ ایف آئی آر کا بروقت اندراج پولیس افسر کا قانونی فرض ہے، بصورت دیگر شواہد ضائع ہو سکتے ہیں اور بے گناہ افراد جھوٹے مقدمات میں پھنس سکتے ہیں۔
سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ ایف آئی آر میں تاخیر کمزور، غریب اور پسماندہ طبقات کے ساتھ ظلم کے مترادف ہے۔ عدالت نے پولیس کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ پولیس عوام کی نہیں بلکہ طاقتور طبقے کی خدمت کر رہی ہے، اور اس سے پولیس اسٹیٹ کا تاثر پیدا ہو رہا ہے جو انتہائی خطرناک ہے۔
عدالت نے کہا کہ ہمیں پولیس اسٹیٹ سے نکل کر آئینی ریاست کی طرف جانا ہوگا، اور ہر پولیس افسر آئین کا پابند ہے۔
سپریم کورٹ نے تمام صوبوں کے آئی جیز کو قانون پر سختی سے عمل درآمد کی ہدایت کی اور پراسیکیوٹر جنرلز کو ہدایت کی کہ وہ ایس او پیز مرتب کریں تاکہ عوام کا پولیس پر اعتماد بحال کیا جا سکے۔
عدالت نے کہا کہ عوام کا پولیس پر اعتماد ہی اس بات کا پیمانہ ہے کہ ہم آئینی ریاست ہیں یا پولیس اسٹیٹ۔