سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس 3 ہفتوں کے لیے ملتوی

پیر 8 مئی 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ آف پاکستان کے 8 رکنی بینچ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف کیس کی سماعت 3 ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 8 رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر نقوی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید بینچ کا حصہ ہیں۔

حکومت نے فل کورٹ تشکیل دینے کے لیے درخواست دائر کی ہے: اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان

سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے عدالت کو بتایا کہ حکومت نے فل کورٹ تشکیل دینے کے لیے درخواست دائر کی ہے۔ اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا آپ کی درخواست پر تو ابھی نمبر بھی نہیں لگا۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آپ نے دستاویزات جمع کروا دی ہیں۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ توقع ہےکل تک پارلیمانی کارروائی کا ریکارڈ مل جائے گا۔ اسپیکر آفس سے باضابطہ اور غیر رسمی طور پر بھی رابطہ کیا ہے۔عدالت قرار دے چکی ہے کہ آئین کا بنیادی ڈھانچہ موجود ہے۔ عدلیہ آزادی آئین کا بنیادی جزو ہے۔

اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں کہا کہ قانون میں بینچوں کی تشکیل اور اپیلوں کا معاملہ طےکیا گیا ہے۔ عدالتی اصلاحات بل میں وکیل کی تبدیلی کا بھی حق دیا گیا ہے، قانون میں جو معاملات طےکیےگئے وہ انتظامی نوعیت کے ہیں، سپریم کورٹ کے رولز فل کورٹ نے تشکیل دے تھے۔ سپریم کورٹ رولز میں ترمیم بھی فل کورٹ ہی کر سکتی ہے۔ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے مزید کہا کہ عدلیہ کی آزادی اور رولز سے متعلق فیصلہ و مقدمہ بھی فل کورٹ کو سننا چاہیے، قانون براہ راست ان ججز پر بھی لاگو ہوگا جو مقدمہ نہیں سن رہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا سوال قانون سازی کے اختیارات کا ہے رولز میں ترمیم کا نہیں، قانون سازی کا اختیار مختلف بینچز معمول میں کرتے رہتے ہیں۔ جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کیا ماضی میں ایسی قانون سازی ہوئی ہے؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ 1992 تک رولز بنانے کے لیے صدر کی اجازت درکار تھی۔ جسٹس مظاہر نقوی نے کہا آرٹیکل 91 کے ہوتے ہوئے ایسی قانون سازی کیسے ہو سکتی ہے؟

کیا حکومت فل کورٹ کا فائدہ اٹھانا چاہتی ہے؟ جسٹس عائشہ ملک

اٹارنی جنرل نے کہا کہ صدر کی اجازت کا اختیار واپس لے لیا گیا تھا، رولز آئین و قانون کے مطابق بنانے کی شق برقرار رکھی گئی ہے۔ ماضی میں کبھی ایسا مقدمہ نہیں آیا کہ فل کورٹ تشکیل دی جائے۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کئی مقدمات اپنی نوعیت کے پہلے ہوتے ہیں، سپریم کورٹ کا کوئی بھی بینچ کوئی بھی مقدمہ سن سکتا ہے، کیا حکومت فل کورٹ کا فائدہ اٹھانا چاہتی ہے؟ کیا حکومت چاہتی ہے عدالت کی اندرونی بحث باہر  آئے؟ ہر مقدمہ اہم ہوتا ہے یہ یقین کیسے ہوگا کہ کونسا کیس فل کورٹ سنے؟ کیا عدلیہ کی آزادی کا ہر مقدمہ فل کورٹ نے سنا تھا؟

اٹارنی جنرل نے کہا ’افتخار چوہدری کیس سمیت کئی مقدمات فل کورٹ نے سنے؟ عدلیہ کی آزادی کے تمام مقدمات فل کورٹ نے نہیں سنے۔ جسٹس مظاہر نقوی نے کہا افتخار چوہدری کیس مختلف نوعیت کا تھا۔ جسٹس منیب اختر نے کہا رولز بنانے کا اختیار فل کورٹ کو انتظامی امور میں ہے۔ اگر 3 رکنی بینچ کے سامنے رولز کی تشریح کا مقدمہ آجائے تو کیا وہ بھی فل کورٹ کو سننا چاہیے؟ فل کورٹ اپنے رولز بنا چکی ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا موجودہ کیس میں قانونی سازی کا اختیار چیلنج ہے۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا آپ کی منطق سمجھ سے باہر ہے فل کورٹ کا فیصلہ اچھا اور 3 رکنی بینچ کا برا ہو گا۔

کیا بینچ چیف جسٹس کو فل کورٹ بنانے کا حکم دے سکتا ہے: جسٹس شاہد وحید

جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیے’ کیا آپ کی منطق یہ ہے کہ رولز فل کورٹ نے بنائے تو تشریح بھی وہی کرے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا فل کورٹ کا جواب خود پارلیمنٹ نے اپنے بنائے گئے قانون میں دے دیا ہے، عدالتی اصلاحات بل کے مطابق 5 رکنی بینچ آئین کی تشریح کا مقدمہ سنے گا۔ یا تو آپ کہیں کہ پارلیمنٹ نے قانون غلط بنایا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا عدالت نے قانون  پر عمل درآمد سے روک رکھا ہے۔

جسٹس منیب  اختر  نے کہا اگر حکم امتناع نہ ہوتا تو فل کورٹ کی استدعا کہاں جاتی؟ پارلیمنٹ کہتی ہے 5 رکنی بینچ ہو، اٹارنی جنرل کہتے ہیں فل کورٹ ہو۔ لگتا ہے حکومت کی گنتی کمزور پڑ گئی ہے کہ یہاں کتنے ججز بیٹھے ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا فل کورٹ کی استدعا مناسب لگنے پر کی جاسکتی ہے۔ قانون میں کم سے کم 5 ججز کا لکھا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ پارلیمنٹ 5 ججز سے مطمئن ہے تو اٹارنی جنرل کیوں نہیں؟ جسٹس عائشہ ملک نے کہا قوانین کے خلاف درخواستیں عدالت معمول میں سنتی ہے۔ ہائیکورٹ بھی قوانین کے خلاف درخواستیں سنتی ہیں۔ کیا ہائیکورٹ میں بھی فل کورٹ کی استدعا کی گئی ہے۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا یہ اپنی نوعیت کا پہلا مقدمہ نہیں ہے، 2012 میں بھی اس نوعیت کا مقدمہ سنا جا چکا ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا ’کیا لاہور ہائیکورٹ میں 60 اور سندھ ہائیکورٹ میں 40 ججز سماعت کریں گے؟ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا فل کورٹ کی درخواست میں لکھا ہے کہ بینچ حکم امتناع میں اپنا ذہن دے چکا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا عدالتی اصلاحات بل ہائیکورٹ میں چیلنج ہے اس پر بات نہیں کروں گا۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تو ہائیکورٹس فل کورٹ بنانے کی پابند ہوں گی۔ اگر صوبائی اسمبلی بھی اس نوعیت کا قانون بنا دے تو کیا پوری ہائیکورٹ مقدمہ سنے گی۔ جسٹس عائشہ ملک  نے کہا کیا تمام 8 ججز فیصلہ کریں گے کہ فل کورٹ بنے گی؟ جسٹس شاہد وحید نے کہا کیا بینچ چیف جسٹس کو فل کورٹ بنانے کا حکم دے سکتا ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی پھانسی کے مقدمے میں بینچ پر اعتراض کیا تھا، پھر 9 رکنی فل کورٹ نے مقدمہ سنا تھا: اٹارنی جنرل

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ فل کورٹ تشکیل دینے کی درخواست قابل سماعت ہونے پر بھی سوال ہے؟ ایسی درخواست انتظامی سطح پر دی جا سکتی ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا ججز چیف جسٹس سے فل کورٹ بنانے کی گزارش کر سکتے ہیں۔ جسٹس شاہد وحید نے کہا درخواست میں آپ چیف جسٹس کو حکم دینے کی استدعا کر رہے ہیں، کیا عدالت چیف جسٹس کو حکم دے سکتی ہے؟

جسٹس مظاہر علی نقوی نے کہا فل کورٹ کی تشکیل کی درخواست میں کی گئی استدعا پر تحفظات ہیں۔ جسٹس شاہد وحید نے کہا ایسی استدعا پر عدالت کس قسم کا حکم دے سکتی ہے؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ماضی میں ایسی درخواست پر فل کورٹ تشکیل دی جاتی رہی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ درخواست میں کی گئی استدعا اچھے الفاظ میں نہیں لیکن عدالت کو سمجھ آ گئی ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی پھانسی کے مقدمے میں بینچ پر اعتراض کیا تھا۔ جج پر اعتراض ہوا اور 9 رکنی فل کورٹ نے مقدمہ سنا۔ جسٹس مظاہر علی نقوی نے کہا آپ جس فیصلے کا حوالہ دے رہے ہیں اس میں وجوہات بھی دی گئی ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا اس وقت کے چیف جسٹس انوارالحق نے اعتراض مسترد کیا، 9 رکنی فل کورٹ میں چیف جسٹس خود بھی شامل تھے، موجودہ درخواست میں کسی جج یا چیف جسٹس پر اعتراض نہیں۔اس پر چیف جسٹس نے کہا اعتراض ہو تو فیصلہ جج نے کرنا ہوتا ہے کہ وہ مقدمہ سنے یا نہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا فل کورٹ تشکیل دینے کے حوالے سے اپنی معروضات پیش کر چکے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا مستقبل کے لیے تعین کرنا ہے کہ بینچ کن حالات میں فل کورٹ تشکیل دینے کا کہہ سکتا ہے، عدالت کو اس حوالے سے مزید معاونت چاہئیے۔ اٹارنی جنرل نے کہا معاملہ صرف آٸین کی تشریح کا نہیں، آٸینی ترامیم کیس میں عدالت نے فوجی عدالتیں درست قرار دی تھیں۔ چیف جسٹس نے کہا موجودہ کیس آٸینی ترامیم کا نہیں ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا عدالتی فیصلہ مستقبل کے لیے ہوتا ہے، 20 سال بعد شاید زمینی حالات اور آٸین مختلف ہو۔ اٹارنی جنرل نے فل کورٹ کی تشکیل پر دلاٸل مکمل کر لیے۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ ’کیا ن لیگ کی درخواست پر نمبر لگ گیا ہے‘؟ ن لیگ کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین نے بتایا کہ درخواست آج ہی دی تھی نمبر لگ چکا ہے۔ بیرسٹر صلاح الدین نے دلاٸل کا آغاز کر دیا۔

ججز پر الزام لگے تو ٹرائل سپریم کورٹ کا ہوتا ہے: چیف جسٹس

بیرسٹر صلاح الدین نے دلائل دیتے ہوئے کہا حکم امتناع کے ذریعے پہلی مرتبہ قانون پر عمل درآمد روکا گیا ہے۔ فل کورٹ بینچ کے لیے درخواستیں معمول میں دی جاتی ہیں۔ جسٹس فائز عیسی کیس میں بھی فل کورٹ بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا جسٹس فائز عیسی کیس کا معاملہ چیف جسٹس کو بھجوایا گیا تھا، چیف جسٹس خود جسٹس فائز عیسی کیس نہیں سن رہے تھے۔ بیرسٹر صلاح الدین نے کہا 7 رکنی بینچ نے فل کورٹ تشکیل دینے کی ہدایت کی تھی، بعض اوقات بینچ خود بھی فل کورٹ کی تشکیل کے لیے فائل چیف جسٹس کو بھجواتا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ افتخار چوہدری اور جسٹس فائز عیسی کیسز صدارتی ریفرنس پر تھے، ججز پر الزام لگے تو ٹرائل سپریم کورٹ کا ہوتا ہے، معاملہ سنگین نوعیت کا ہونے پر ہی فل کورٹ بنا تھا، دونوں ججز کے خلاف ریفرنس سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دیے تھے، کسی اور مقدمے میں فل کورٹ کی مثال ہے تو دیں۔ بیرسٹر صلاح الدین نے بتایا کہ آئی جی جیل خانہ جات کیس میں بھی فل کورٹ تشکیل دی گئی تھی۔ بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کوئی سائل ایک درخواست دیتا ہے تو اسے علم ہونا چاہیئے اس کی درخواست پر کیا فیصلہ کیا گیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا اگر ایسی مثال قائم کی گئی تو پنڈورا باکس کھل جائے گا، کل ہر کوئی آکر کہے گا کہ فل کورٹ بنایا جائے۔ چیف جسٹس نے کہا بینچ کی تشکیل کے چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات پر میں خاموش ہوں۔

عدالت عظمیٰ نے کیس کی مزید سماعت 3 ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی۔


سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 ہے کیا؟

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل میں کہا گیا کہ عدالت عظمیٰ کے سامنے کسی وجہ، معاملہ یا اپیل کو چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججز پر مشتمل ایک کمیٹی کے ذریعے تشکیل دیا گیا بینچ سنے گا اور اسے نمٹائے گا، کمیٹی کے فیصلے اکثریت سے کیے جائیں گے۔

عدالت عظمیٰ کے اصل دائرہ اختیار کو استعمال کرنے کے حوالے سے قانون میں کہا گیا کہ آرٹیکل 184(3) کے استعمال کا کوئی بھی معاملہ پہلے مذکورہ کمیٹی کے سامنے رکھا جائے گا۔

اگر کمیٹی یہ مانتی ہے کہ آئین کے حصہ II کے باب اول میں درج کسی بھی بنیادی حقوق کے نفاذ کے حوالے سے عوامی اہمیت کا سوال پٹیشن کا حصہ ہے تو وہ ایک بینچ تشکیل دے گی جس میں کم از کم تین ججز شامل ہوں گے، سپریم کورٹ آف پاکستان جس میں اس معاملے کے فیصلے کے لیے کمیٹی کے ارکان بھی شامل ہو سکتے ہیں۔

آرٹیکل 184(3) کے دائرہ اختیار کا استعمال کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ کے بینچ کے کسی بھی فیصلے پر اپیل کے حق کے بارے میں بل میں کہا گیا کہ بینچ کے حکم کے 30 دن کے اندر اپیل سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے پاس جائے گی، اپیل کو 14 دن سے کم مدت کے اندر سماعت کے لیے مقرر کیا جائے گا۔

بل میں قانون کے دیگر پہلوؤں میں بھی تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں، اس میں کہا گیا کہ ایک پارٹی کو آئین کے آرٹیکل 188 کے تحت نظرثانی کی درخواست داخل کرنے کے لیے اپنی پسند کا وکیل مقرر کرنے کا حق ہوگا۔

اس کے علاوہ یہ بھی کہا گیا کہ کسی وجہ، اپیل یا معاملے میں جلد سماعت یا عبوری ریلیف کے لیے دائر کی گئی درخواست 14 دنوں کے اندر سماعت کے لیے مقرر کی جائے گی۔

قانون میں کہا گیا کہ اس کی دفعات کسی بھی دوسرے قانون، قواعد و ضوابط میں موجود کسی بھی چیز کے باوجود نافذ العمل ہوں گی یا کسی بھی عدالت بشمول سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے فیصلے پر اثر انداز ہوں گی۔

قانون پر اعتراضات اور اس کے خلاف درخواستیں

قانون کے خلاف دائر تینوں درخواستوں میں کہا گیا تھا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کا تصور، تیاری، توثیق اور اسے پاس کرنا بددیانتی پر مبنی عمل ہے، لہٰذا سپریم کورٹ اسے کالعدم قرار دے۔ کیس میں وفاقی حکومت، سیکریٹری قانون کے ساتھ ساتھ وزیراعظم اور صدر کے پرنسپل سیکریٹریز کو نامزد کیا گیا ہے۔

درخواست گزاروں نے سپریم کورٹ سے درخواست کی کہ جب تک درخواست زیر التوا ہے، اس وقت تک بل کو معطل کیا جائے اور صدر ڈاکٹر عارف علوی کو بل منظور نہ کرنے کی ہدایت دی جائے تاکہ یہ پارلیمنٹ کا ایکٹ نہ بن سکے۔ ان کا موقف تھا کہ وفاقی حکومت ایسا کوئی قانون نہیں بنا سکتی جو آئین کے تحت سپریم کورٹ کے کام یا اس کے یا اس کے ججوں بشمول چیف جسٹس کے اختیارات میں مداخلت یا ریگولیٹ کرنے کی کوشش کرے۔

درخواستوں میں کہا گیا ہے کہ آئینی مینڈیٹ کی سراسر خلاف ورزی کرتے ہوئے غیر آئینی اقدام انتہائی متنازع ہے اور وفاقی حکومت نے آئین پاکستان کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی۔ یہ بات ناقابل تصور ہے کہ سوموٹو سمیت آئینی اختیارات کے حوالے سے چیف جسٹس کے دفتر کو پارلیمنٹ کے ذریعے ریگولیٹ کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔

درخواست گزاروں کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ ایسا قانون نہیں بنا سکتی جو آئین کی شقوں سے متصادم ہو اور استدلال کیا گیا کہ اگر کسی بھی اپیل کی قانون سازی کے ذریعے اجازت دی جاسکتی ہے تو یہ صرف آئین میں ترمیم کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp