’فوڈ فار لائف‘ خوراک کا نیا بیانیہ

پیر 14 جولائی 2025
author image

مشکور علی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ہم جو کھاتے ہیں، وہی ہماری صحت، مزاج، نیند، اور یہاں تک کہ شخصیت کو بھی متاثر کرتا ہے۔ یہ بات اب سائنسی تحقیق سے ثابت ہو چکی ہے۔ برطانیہ کے معروف ماہر جینیاتیات (Geneticist) اور صحتِ عامہ کے محقق، پروفیسر ٹم اسپیکٹر کی کتاب(Food for Life: The New Science of Eating Well) اسی تصور کو گہرائی اور وسعت کے ساتھ بیان کرتی ہے۔

ٹم اسپیکٹر (Tim Spector) کی یہ کتاب صرف سائنسی تحقیقات کا مجموعہ نہیں بلکہ ان کی ذاتی زندگی کا عکس بھی ہے۔ وہ ایک وقت میں خود بھی ان غلط فہمیوں کا شکار رہے جو ہم میں سے اکثر لوگوں کو لاحق ہوتی ہیں۔ کم کیلوریز کھائیں، چکنائی سے بچیں، اور وزن گھٹائیں۔ لیکن 2011 میں جب وہ ایک پہاڑی مہم کے دوران اچانک بیمار پڑے اور ان کا بلڈ پریشر خطرناک حد تک بڑھ گیا، تو انہوں نے اپنی صحت پر تحقیق کا آغاز کیا۔ یہی وہ لمحہ تھا جہاں سے (Food for Life) کی بنیاد پڑی۔

کتاب کا مرکزی موضوع ہمارے جسم میں پائے جانے والے بیکٹیریا (Microbiome) ہیں۔ یہ چھوٹے مگر طاقتور جاندار ہمارے ہاضمے، قوتِ مدافعت، ذہنی توازن، اور حتیٰ کہ موڈ پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ ٹم اسپیکٹر کے مطابق، ایک صحتمند جسم کے لیے ضروری ہے کہ ہم ان بیکٹیریا کو زندہ اور متنوع خوراک سے خوش رکھیں۔

مزید پڑھیں: محبت کا آخری عجوبہ

مائیکرو بایوم انسانی جسم میں پائے جانے والے اربوں خوردبینی جانداروں کا مجموعہ ہے جو ہماری آنتوں، جلد، منہ، اور دیگر اعضا میں بستے ہیں۔ یہ بیکٹیریا، وائرس اور فنگس نہ صرف نظامِ ہضم کو بہتر بناتے ہیں بلکہ مدافعتی نظام کو مضبوط کرنے، وٹامنز بنانے اور بیماریوں سے بچاؤ میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ایک متوازن مائیکرو بایوم ہماری جسمانی و ذہنی صحت کے لیے نہایت ضروری ہے، اور اس توازن کو برقرار رکھنے کے لیے صحت مند غذا، نیند، اور ذہنی سکون اہم عوامل ہیں۔

حالیہ طبی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ مائیکرو بایوم صرف ہاضمے یا جسمانی صحت تک محدود نہیں بلکہ یہ انسان کے مزاج، نیند، اور حتیٰ کہ دماغی بیماریوں جیسے ڈپریشن اور بے چینی سے بھی گہرا تعلق رکھتا ہے۔ ماہرین کے مطابق آنتوں میں موجود بیکٹیریا دماغ تک سگنلز بھیجنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، جسے Gut-Brain Axis کہا جاتا ہے۔ اسی لیے مائیکرو بایوم کو آج ’دوسرا دماغ‘ بھی کہا جاتا ہے۔ جدید دور میں پروبائیوٹکس اور پری بائیوٹکس سے بھرپور خوراک کو ذہنی و جسمانی صحت کی بہتری کے لیے نہایت مؤثر قرار دیا جا رہا ہے۔

مائیکرو بایوم کی صحت بہتر بنانے کے لیے ایسی غذاؤں کا استعمال ضروری ہے جو فائدہ مند بیکٹیریا کو تقویت دیں۔ دہی، لسی، اچار، اور خمیر شدہ سبزیاں پروبایوٹکس سے بھرپور ہوتی ہیں جو جسم میں فائدہ مند جراثیم کی تعداد بڑھاتی ہیں۔ اسی طرح کیلا، لہسن، پیاز، دلیہ، دالیں اور ساگ جیسی غذائیں پری بائیوٹکس فراہم کرتی ہیں، جو ان جراثیم کے لیے خوراک کا کام کرتی ہیں۔ متوازن غذا کے ساتھ جنک فوڈ اور ضرورت سے زیادہ اینٹی بائیوٹکس سے پرہیز، مکمل نیند اور روزانہ ہلکی ورزش بھی مائیکرو بایوم کو صحت مند رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

مزید پڑھیں: پان سنگھ تومر

ٹم اسپیکٹر کے بقول، ہمارا آنتوں کا نظام ایک نازک باغ کی مانند ہے۔ اگر ہم اس باغ میں مختلف قسم کے بیج (یعنی متنوع غذا) نہ بوئیں، تو یہ سوکھ جاتا ہے اور اس کی پیداوار کم ہو جاتی ہے۔ پروسسڈ فوڈ، مصنوعی مٹھاس، چینی، اور فاسٹ فوڈ اس باغ کو تباہ کرنے والے عوامل ہیں۔

ٹم اسپیکٹر (Eat the Rainbow) کی اصطلاح کو فروغ دیتے ہیں، یعنی خوراک میں زیادہ سے زیادہ قدرتی رنگ شامل کریں۔ ہر سبزی، پھل اور دال اپنے رنگ میں ایک خاص قسم کے ’پولی فینولز‘ رکھتی ہے، جو ہمارے جسم میں سوزش کم کرتے اور قوتِ مدافعت کو بہتر بناتے ہیں۔ کتاب میں بتایا گیا ہے کہ خوراک کی خوبصورتی صرف ذائقے یا خوشبو میں نہیں، بلکہ اس کی ساخت، رنگ، اور مٹی سے جڑے ہونے میں بھی ہے۔

ٹم اسپیکٹر نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ہر فرد کا جسم الگ انداز میں غذا کو جذب کرتا ہے۔ ایک شخص کے لیے سیب فائدہ مند ہو سکتا ہے، جبکہ دوسرے کے لیے وہی سیب بلڈ شوگر بڑھا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ (Personalised nutrition) یعنی ہر فرد کے لیے مخصوص غذائی منصوبے کی بات کرتے ہیں۔

ان کی زیرِ نگرانی ادارہ اسی تحقیق پر کام کر رہا ہے کہ ہر انسان کا میٹابولزم، خون میں چینی اور چکنائی کا ردعمل، اور مائیکرو بایوم الگ ہوتے ہیں۔ چنانچہ ایک غذا سب کے لیے کی پالیسی ناقابلِ قبول ہے۔

مزید پڑھیں: قائد ہم شرمندہ ہیں

کتاب میں موجود ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ مصنوعی وٹامنز اور سپلیمنٹس کی مارکیٹ درحقیقت خوف کی بنیاد پر چلتی ہے۔ اسپیکٹر کا کہنا ہے کہ اگر ہم قدرتی، تنوع سے بھرپور اور فائبر والی خوراک کھائیں تو سپلیمنٹ کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔

’فوڈ فار لائف‘ محض جسمانی صحت پر نہیں بلکہ ماحول پر بھی نظر رکھتی ہے۔ ٹم اسپیکٹر بتاتے ہیں کہ صنعتی طور پر پیدا کردہ گوشت، ڈیری، اور مونو کلچر زراعت نہ صرف زمین کی زرخیزی کو ختم کر رہے ہیں بلکہ عالمی ماحولیاتی نظام کو بھی متاثر کر رہے ہیں۔

ان کے نزدیک، مستقبل کی غذا وہ ہوگی جو صرف صحت مند نہیں بلکہ ماحول دوست بھی ہو۔ یعنی دالیں، سبزیاں، موسمی پھل، مقامی غلہ اور کم گوشت والی خوراک ہی انسان اور زمین، دونوں کے لیے فائدہ مند ہے۔

ٹم اسپیکٹر اس کتاب میں ہمیں خودمختار بناتے ہیں۔ وہ زبردستی ڈائٹ پلان یا غذا کی فہرست نہیں تھماتے بلکہ بتاتے ہیں کہ ہمیں خوراک کو سمجھنے، محسوس کرنے اور سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہم جو کھاتے ہیں وہ محض پیٹ بھرنے کے لیے نہیں بلکہ زندگی کی سمت متعین کرنے کے لیے ہے۔

مزید پڑھیں: ’ایسا لگا کہ میں اقبال ہوں اور خود کو پینٹ کر رہا ہوں‘

یہ کتاب ہمیں دعوت دیتی ہے کہ ہم اپنے باورچی خانے کو ایک تجربہ گاہ سمجھیں، جہاں ہر دن نئی دریافت ہو سکتی ہے۔ کہ ہم اپنی پلیٹ کو رنگوں، ذائقوں اور غذائیت سے بھر دیں کیونکہ اصل زندگی وہی ہے جو خوراک سے توانائی لے۔

ٹم اسپیکٹر برطانیہ کی کنگز کالج لندن میں جینیاتی وبائی امراض (Genetic Epidemiology) کے پروفیسر ہیں۔ وہ متعدد کتابوں کے مصنف، بین الاقوامی مقرر اور ZOE نامی تحقیقی ادارے کے بانی ہیں، جو ذاتی غذائیت (Personalised Nutrition) پر کام کرتا ہے۔ انہوں نے اپنی زندگی صحتِ عامہ، خوراک، جینیات، اور انسانی آنتوں میں پائے جانے والے مائیکرو بایوم کی تحقیق کے لیے وقف کر رکھی ہے۔ ان کا اندازِ تحریر عام قاری کے لیے سادہ، دلنشین اور قائل کرنے والا ہے، جس میں سائنسی شواہد کو زندگی کے عملی تجربات کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔

’فوڈ فار لائف‘ صرف ایک کتاب نہیں بلکہ ایک بیداری کی تحریک ہے۔ یہ کتاب پہلی بار 27 اکتوبر 2022 کو پینگوئن رینڈم ہاؤس کے تحت شائع ہوئی، اور اس نے جلد ہی صحت، غذائیت اور سائنسی تجزیے پر مبنی غیر افسانوی کتابوں میں مقبولیت حاصل کرلی۔ یہ ہر اس فرد کے لیے ہے جو خود کو بہتر محسوس کرنا چاہتا ہے، بغیر کسی مصنوعی سپورٹ، صرف قدرتی خوراک، علم، اور ذاتی مشاہدے کے ذریعے۔ یہ قارئین کے لیے نئے زاویے سے سوچنے کا دروازہ کھول سکتی ہے، جہاں خوراک صرف جسمانی ضرورت نہیں، بلکہ زندگی کی معنویت ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp