پان سنگھ تومر

پیر 29 اپریل 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

لیجنڈری ایکٹر عرفان خان نے اداکاری کی تربیت نئی دہلی کے نیشنل اسکول آف ڈراما (NSD)سے 1989 میں مکمل کی۔ انہوں نے اپنے فلمی کیریئر میں قریباً 90 فلموں میں کام کیا۔ وہ آج ہی کے دن 29 اپریل 2020 کو 53 برس کی عمر میں خالق حقیقی سے جاملے تھے۔ 2018 میں انہیں کینسر کی تشخیص ہوئی تھی جس کی اطلاع انہوں نے بذریعہ ٹوئیٹ خود اپنے مداحوں کو دی تھی۔

5 مارچ 2018

’کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ آنکھ اس جھٹکے سے کھلتی ہے جو زندگی تمہیں جگانے کے لیے دیتی ہے۔ پچھلے 15 دن سے میری زندگی ایک سسپنس کہانی بنی ہوئی ہے۔ مجھے اندازا نہیں تھا کہ نایاب کہانیوں کا پیچھا کرتے کرتے میں خود ایک نایاب بیماری کا شکار ہو جاؤں گا۔ میری فیملی اور دوست احباب میرے ساتھ ہیں، اور کسی مناسب حل کی تلاش میں ہیں۔ میں ہفتے یا 10 دن بعد خود آپ کو تشخیص سے آگاہ کروں گا، آپ کی دعاؤں کا طالب!

16 مارچ 2018

’زندگی میں اچانک کچھ ایسا ہو جاتا ہے جو آپ کو آگے لے کر جاتا ہے۔ گزشتہ چند دن ایسے ہی رہے ہیں۔ مجھے نیورو اینڈوکرائن ٹیومر نامی مرض ہوگیا ہے، لیکن میرے آس پاس موجود لوگوں کے پیار اور طاقت نے مجھ میں امید پیدا کی ہے۔ مجھے علاج کے لیے بیرون ملک جانا پڑے گا۔ دعاؤں میں یاد رکھیے گا۔‘

لندن: 19 جون 2018

’کچھ ماہ قبل معلوم ہوا تھا کہ میں نیورو اینڈوکرائن کینسر (neuroendocrine cancer) میں مبتلا ہوں۔ میرے لیے یہ ایک بالکل نیا نام تھا۔  پھر پتا چلا کہ یہ بیماری ہی نایاب ہے، کم معلومات اور زیادہ خدشات اس سے جڑے ہیں۔ گویا میں اس ‘Trial and Error’ کھیل کا حصہ بن چکا تھا۔

میں تو کسی اور سمت گامزن تھا۔ ایک تیز رفتار ریل پر سوار، جس میں میرے پاس خوابوں، منصوبوں، توقعات اور خواہشوں جیسا رختِ سفر تھا۔ لیکن اچانک ٹکٹ چیکر نے میرا کاندھا تھپتھپایا؛
’آپ کی منزل قریب ہے، اترنے کی تیاری کیجیے۔‘
میں بوکھلا گیا، میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔
نہیں نہیں، ابھی میرا اسٹیشن نہیں آیا۔
’نہیں، اس ریل کا یہی اصول ہے، اگلے اسٹیشن پر ہی اترنا ہی پڑے گا۔‘

اور پھر اسی لمحے مجھے احساس ہوا کہ ہم کسی بے وزن کارک کی طرح کسی انجان سمندر میں بے سمت لہروں پر بہہ رہے ہیں، اس خوش فہمی میں کہ ہم ان لہروں پر مکمل اختیار رکھتے ہیں۔ اسی بدحواسی، ہڑبڑاہٹ اور خوف میں گھبرا کر اپنے بیٹے سے کہتا ہوں کہ میں بس اتنا چاہتا ہوں کہ اپنی ذہنی کیفیت کو، سراسیمگی، ڈر اور بدحواسی کو خود پر طاری نہ ہونے دوں۔ مجھے دکھ تکلیف رنج و الم کو اپنے اعصاب پر مسلط نہیں کرنا۔ میری تو بس یہی خواہش اور ارادہ تھا۔

کچھ ہفتوں کے بعد اسپتال میں داخل ہوگیا۔ بے انتہا درد میرے وجود میں تھا، اس کا تو اندازا تھا ہی لیکن اس کی شدت سے واقفیت اب ہوئی۔ سب کچھ بے سود رہا، نہ کوئی تسلی نہ دلاسہ، یوں کہ جیسے پوری کی پوری کائنات نے درد کا روپ دھار لیا ہو۔ درد جو اس لمحے خدا سے بھی بڑا محسوس ہوا۔

میں ناتواں، بے کس، بیزار حالت میں جس اسپتال میں پہنچا وہاں اسی بے پروائی کے عالم میں معلوم ہوا کہ میرے اسپتال کے بالکل سامنے لارڈز کرکٹ اسٹیڈیم ہے۔ میرے بچپن کے خوابوں کا محور، جان لیوا درد کے حصار میں، میں نے دیکھا کہ وہاں ووین رچرڈز کا مسکراتا پوسٹر ہے جس کی جھلک میرے اندر کوئی بھی احساس پیدا نہ کرسکی۔ یوں کہ جیسے وہ دنیا کبھی میری تھی ہی نہیں، میں بالکل اس سے بے نیاز ہوں۔

اسی درد کی گرفت میں جب میں اپنے اسپتال کی بالکنی میں کھڑا تھا تو یہ احساس ہوا، جیسے موت اور زندگی کے اس کھیل کے درمیان صرف ایک سڑک کا فاصلہ ہے، سڑک کے اُس پار کھیل کا میدان ہے اِس طرف اسپتال ہے، میں ان میں سے کسی ایسی چیز کا حصہ نہیں جو دائمی ہونے کا دعویٰ کرے، نہ ہاسپٹل اور نہ ہی اسٹیڈیم۔ دل بول اٹھا؛
’صرف بے ثباتی کو ہی ثبات ہے۔‘

اسی احساس نے مجھے سپردگی اور بھروسے کے لیے تیار کیا۔ اب چاہے جو بھی نتیجہ ہو، یہ چاہے جہاں لے جائے، آج سے 8 مہینوں کے بعد، یا آج سے 4 مہینوں کے بعد، یا پھر 2 سال بعد۔ فکر رفتہ رفتہ معدوم ہونے لگی اور پھر میرے دماغ سے جینےمرنے کا کانٹا نکل گیا۔ پہلی بار مجھے لفظ ’آزادی‘ کا احساس ہوا، صحیح معنوں میں ایک کامیابی کا احساس۔

اس کائنات کا یہ سچ میرے یقین کو کامل کرگیا اور اس کے بعد لگا کہ وہ یقین میری نس نس میں سرایت کر گیا ہے۔ وقت ہی بتائے‌گا کہ وہ ٹھہرتا ہے کہ نہیں، فی الحال میں یہی محسوس‌کر رہا ہوں۔

عرفان خان اپنی اہلیہ ’سوتاپا سکدر‘ کے ہمراہ

اس سفر میں دنیا بھر سے خیرخواہ میری صحت مندی کی دعا کر رہے ہیں، میں جن کو جانتا ہوں اور جن کو نہیں جانتا، وہ سب الگ الگ مقامات اور ٹائم زون سے میرے لیے دعائیں کر رہے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ ان کی دعائیں مل‌ کر ایک بڑی طاقت میں تبدیل ہوگئی ہیں۔ جو تیز رفتار زندگی کی مانند میرے دھڑ سے ہوتے ہوئے سر سے پھوٹنے لگی ہے۔ کبھی کلی بن کر، کبھی پنکھڑی کی طرح، کبھی ٹہنی اور کبھی شاخ کی طرح۔

میں ایک حسین اور پُرلطف احساس کے تابع انہیں دیکھتا ہوں۔ لوگوں کی نیک خواہشات، پرخلوص الفاظ سے پھوٹتی ہر ٹہنی، ہر پتی، ہر پھول، میری زندگی کو حیرتوں، خوشیوں اور تجسس سے سرشار کیے جاتی ہے۔ اب احساس ہوتا ہے جیسے ضروری نہیں کہ لہروں پر تیرتے کارک کا ان پر اختیار بھی ہو۔ یہ تو یوں ہے کہ جیسے آپ فطرت کی آغوش میں جھول رہے ہوں۔

25 اپریل 2020

25 اپریل 2020 کو عرفان خان کی والدہ سعیدہ بیگم جے پور میں انتقال کرگئی تھیں تاہم کورونا وائرس کی وجہ سے ملک گیرلاک ڈاؤن کے باعث وہ اپنی والدہ کی آخری رسومات میں شریک نہیں ہوسکے تھے۔

انہوں نے ویڈیو کال کے ذریعے والدہ کی آخری رسومات میں شرکت کی، وہ اس محرومی کے باعث سخت تکلیف اور کرب میں مبتلا تھے۔ اسی دوران ان کی طبیعت اچانک بگڑ گئی اور انہیں اسپتال منتقل کردیا گیا تھا۔

29 اپریل 2020

عرفان خان کو 28 اپریل 2020 کو ممبئی کے کوکیلابین اسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔ 29 اپریل 2020 کی صبح عرفان خان نے اپنی اہلیہ ’سوتاپا سکدر‘ کو مخاطب کرکے کہا کہ دیکھو ماں آئی ہے، وہ میرے بستر پر بیٹھی ہے، مجھے لینے آئی ہے۔ یہ سن کر ان کی اہلیہ زار و قطار رونے لگیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp