ماؤنٹین پاس کیلیفورنیا میں واقعی ریئر ارتھ منرل کی واحد فنکشنل امریکی کان ہے۔ اس اہم کان کی ملکیت ایم پی میٹیریلز کے پاس ہے۔ امریکی ڈپارٹمنٹ آف ڈیفنس (پینٹاگان اس ڈپارٹمنٹ آف ڈفینس کے ہیڈ کوارٹر کا نام ہے) نے ایم پی منرل کے 15 فیصد شیئر خرید لیے ہیں۔ اس خریداری کے ساتھ ہی ریئر ارتھ اور کریٹکل منرل کو امریکا اپنی سیکیورٹی ڈومین میں لے آیا ہے۔
سی ایف آئی یو آیس یعنی کمیٹی آن فارن انویسٹمنٹ ان دی یونائٹڈ سٹیٹس کے دائرہ اختیار میں بھی تبدیلی کر دی گئی ہے۔ اس امریکی کمیٹی کا دائرہ اختیار دفاعی شعبے میں سرمایہ کاری تک محدود تھا جو اب ٹیکنالوجی، بنیادی ڈھانچے، اے آئی اور حساس ذاتی ڈیٹا تک بڑھا دیا گیا ہے۔ قومی سلامتی سے متعلق امریکی تصورات تبدیل ہوتے جا رہے ہیں۔
جاپان کی نیپون اسٹیل نے یو ایس اسٹیل کو 2024 میں خریدنے کی کوشش کی جسے روک دیا گیا تھا۔ آرٹیفیشل انٹیلی جنس، سیمی کنڈکٹرز اور الیکٹرک وہیکلز میں چین کی برتری کو کم کرنے کے لیے امریکا نے چینی کمپنیوں پر پابنیداں عائد کی ہیں۔ ریئر ارتھ منرل جنہیں امریکی اب اپنے سیکیورٹی ڈومین میں لے آئے ہیں اس کی سپلائی اور مائننگ پر چینی کنٹرول 80 فیصد کے قریب ہے۔
سرمایہ داری نظام لبرل اکانومی پر مبنی تصور تھا۔ لبرل اکانومی میں آزاد مارکیٹ، انفرادی چوائس اور حکومتوں کی بہت محدود مداخلت کا تصور پیش کیا گیا تھا۔ دنیا کی معیشت کو ایک دوسرے پر انحصار مل کر چلنے، ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن جیسے ادارے دنیا کو گلوبل ویلج بنا اور بتا رہے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: خیبر پختونخوا حکومت بدلنی ہے یا گھسیٹنی ہے؟
اب صورتحال یہ ہے کہ چین رولز بیس دنیا کے آئیڈیا کی حمایت کر رہا ہے ۔ امریکا چین معاشی مسابقت شروع ہو چکی ہے۔ دنیا کی اکانومی ڈالر پر انحصار کرتی ہے جس کی وجہ سے امریکا کو پابندیوں اور کنٹرول کے وسیع اختیارات حآصل ہیں۔
چین، روس اور برکس کے رکن ممالک امریکی ڈالر کی اجارہ داری سے بچنے کے لیے متبادل کرنسیوں کے خیال پر کام کر رہے ہیں، جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ نے برکس پر اضافی ٹیرف لگانے کا بھی اعلان کیا ہوا ہے۔ بدلتی ہوئی عالمی صورتحال میں دنیا گلوبل ولیج سے سکڑ کر ریجنل اتحادوں کی طرف واپس جا رہی ہے۔ جیو پالیٹکس، فوجی طاقت، جغرافیائی محل وقوع اور علاقائی اتحاد اب معیشت کی نئی ڈرائیونگ فورس ہیں۔
اس بدلتی دنیا میں لوکیشن اہم ہے، فوجی طاقت اہم ہے۔ جیوپالیٹکس میں کردار ادا کرنے یا سائڈ لینے کا فائدہ نقصان اہم ہے۔ جب ان لائن پر آپ سوچیں تو پاکستان کی بدلتی اہمیت کا اندازہ ہونے لگتا ہے۔ پاکستان کی انڈیا کے ساتھ حالیہ جھڑپوں کے بعد فوجی برتری ثابت شدہ ہے۔ پاکستان کا ذکر کرتے ٹرمپ کی باتوں میں چھلکتی ممتا کا بہت تعلق جیو پالیٹیکس میں پاکستان کی اہمیت کے ادراک اور کریٹکل منرل کے پاکستانی ذخائر کی اہمیت سے بھی ہے۔ پاکستان کا نیو نارمل دنیا سمجھتی جا رہی ہے، خود پاکستانیوں کو ابھی اس کا اندازہ نہیں ہوا
آپ سوچ کر تو دیکھیں ایٹمی توانائی کے حصول پر اصرار کرتا ایران پابندیوں کا شکار ہے۔ ایٹمی دھماکے کر کے بھی بیٹھے پاکستان کی بلائیں ٹرمپ لیتا پھر رہا ہے۔ یہ فرق کیوں ہے؟ ظاہر ہے بظاہر شدت پسند دکھائی دیتے ہم بہت اعتدال پسند لوگوں کا ملک ہیں۔
ہمیں ترقی کے لیے خود پر معاشی ڈسپلن نافذ کرنا ہے۔ ایسا کریں گے تو ہمارے ساتھ آئندہ معاشی معاہدوں لانگ ٹرم پارٹنر شپ کے لیے انویسٹر کو حوصلہ ہو گا اور ریاستوں کو بھی۔ جب حکومت اپنے ووٹر سپوٹر سیاست تک کی پروا نہ کرتے ہوئے سخت ترین اقدامات مسلسل اٹھاتی چلی جائے تو اس کی وجہ سمجھ آ جانی چاہیے۔
مسلح تنظیموں دہشتگردی کے دن اب گنتی کے ہیں۔ جمہوری رویے، شخصی آزادی، صوبائی خودمختاری اور قانونی اڑچنوں سے بے پروا رہ کر معیشت اور عالمی منظر نامے پر ریاستی کردار کو واضح کرنے اور زیادہ بہتر شیئر حاصل کرنے کا ٹارگٹ حاصل کیا جائے گا۔ فیصلہ ساز کوئی بھی ہو، حکومت کسی بھی پارٹی کی ہو، سربراہ حکومت و ریاست کوئی بھی ہو وہ اسی راستے پر چلے گا۔
مزید پڑھیے: ایران-اسرائیل جنگ بندی کیوں اور کیسے ہوئی؟
پاکستان معاشی حوالے سے اپنی پوٹینشل سے بہت نچلے لیول پر ہے۔ ہمارے معاشی حالات اور غربت سب مصنوعی ہیں، ہماری سیکیورٹی پالیسی، دہشتگردی سیاسی عدم استحکام نے ہمیں معاشی طور پر مضبوط نہیں ہونے دیا۔ بدلتے عالمی حالات میں ہماری کمزوریاں ہی ہماری خوبی بننے جا رہی ہیں۔
جیو پالیٹکس، ریجن، لوکیشن، مضبوط فوج، بڑی آبادی معدنی ذخائر اور 50 فیصد سے زیادہ نوجوان آبادی یہ سب ہماری ترقی کرنے کی وجہ بننے جا رہے ہیں۔ ہماری سیاست سیاسی ترجیحات آؤٹ ڈیٹڈ ہیں۔ ان کو حالات مطابق اپ گریڈ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ اور بات ہے کہ سیاسی قیادت کو دیکھ کر بخار ہو جاتا ہے کہ یہ ان کے بس کی بات نہیں ہے بھائی۔ نہ ہو تب بھی حالات ان کو سیدھا کر دیں گے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔













