حکومت کی جانب سے ایک مرتبہ پھر سے سولر پینلز کی نیٹ میٹرنگ کی جگہ گراس میٹرنگ نظام نافذ کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے، نئی سولر پالیسی میں بجلی واپس خریدنے کے نرخ 11.33 روپے فی یونٹ مقرر کرنے کی تجویز تیار کی گئی ہے۔ آئندہ بجلی کا جو بھی نرخ ہوگا، واپسی نرخ اس کا ایک تہائی ہوگا، تاہم پرانے سولر صارفین 27 روپے پر ہی بجلی بیچتے رہیں گے، پاور ڈویژن کے مطابق 8500 میگاواٹ بجلی سسٹم میں لانے کا ہدف ہے، نئی پالیسی نیپرا منظوری کے بعد کابینہ میں پیش کی جائےگی۔
وی نیوز نے توانائی کے ماہرین اور سولر صارفین سے گفتگو کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ اس نئی پالیسی کے صارفین پر ممکنہ اثرات کیا ہوں گے؟ اور کیا واقعی گراس میٹرنگ، نیٹ میٹرنگ سے زیادہ نقصان دہ ہے؟ جبکہ پاور ڈویژن سے بھی اس پالیسی پر حکومتی مؤقف جاننے کی کوشش کی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: نیٹ میٹرنگ کے بجائے گراس میٹرنگ سے سولر سسٹم کے صارفین کو کیا نقصان ہوگا؟
ذرائع پاور ڈویژن کا کہنا ہے کہ موجودہ سولر سسٹم میں کی جانے والی سرمایہ کاری میں ایک سے ڈیڑھ سال میں سرمایہ واپس حاصل ہو جاتا ہے، اس سے صارفین کو تو بہت فائدہ ہے تاہم بجلی استعمال کرنے والے عام صارفین پر اس کا بوجھ بڑھ جاتا ہے، اب ایک نئے منصوبے پر غور کیا جا رہا ہے کہ جس سے سرمایہ 3 سال میں واپس حاصل ہو سکے گا۔
ذرائع نے بتایا کہ نئی نیٹ میٹرنگ پالیسی سے فی یونٹ بجلی کی قیمتوں میں کمی تو نہیں ہوگی البتہ بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافے کا امکان کم ہو جائے گا۔ اس نئی پالیسی پر مزید کام ہو رہا ہے جس کے بعد یہ 15 دنوں تک پہلے نیپرا اور پھر وفاقی کابینہ کے سامنے منظوری کے لیے پیش کی جائے گی۔
ذرائع پاور ڈویژن کے مطابق نیٹ اور گراس میٹرنگ کے حوالے سے بیشتر تجاویز تیار کرلی گئی ہیں جس میں ایک یہ تجویز بھی ہے کہ نیٹ میٹرنگ کو مکمل طور پر ختم کردیا جائے۔ پاور ڈویژن کا مؤقف ہے کہ موجودہ نیٹ میٹرنگ پالیسی کے باعث دیگر صارفین پر مجموعی طور 159 ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑ رہا ہے۔
حکومت کی جانب سے نئی نیٹ میٹرنگ پالیسی لانے کا فیصلہ ایک ایسے وقت میں آ رہا ہے جب کچھ عرصہ قبل ہی نیٹ میٹرنگ کے فی یونٹ ریٹ میں کمی کی تجاویز کو سرمایہ کاروں اور سولر کمپنیوں نے کھلے عام مسترد کردیا تھا، ان کا مؤقف تھا کہ یہ اقدام سولر مارکیٹ کی ترقی کو روک دے گا۔
حکومت جس پالیسی پر غور کررہی ہے وہ گراس میٹرنگ نہیں نیٹ بلنگ ہے، آفاق علی
پاکستان سولر ایسوسی ایشن کے وائس چیئرمین آفاق علی خان نے نئی پالیسی کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ حکومت جس پالیسی پر غور کررہی ہے وہ گراس میٹرنگ نہیں بلکہ نیٹ بلنگ ہے۔ یہ تبدیلی صرف ایک اصطلاحی فرق نہیں، بلکہ ایک بڑی پالیسی شفٹ ہے جو نہ صرف سولر صارفین کو نقصان پہنچائے گی بلکہ اس سے سولر انڈسٹری کی فروخت اور ترقی بھی بری طرح متاثر ہوگی۔
آفاق علی خان کے مطابق نیٹ میٹرنگ کی موجودہ پالیسی کے تحت صارفین کو اپنی ایکسپورٹ کی گئی بجلی کے بدلے یونٹ ٹو یونٹ کا فائدہ ملتا تھا، جو سرمایہ کاری کو سودمند بناتا تھا، لیکن نیٹ بلنگ میں صارفین جو بجلی گرڈ کو فراہم کریں گے، وہ سستے ریٹ پر خریدی جائے گی، جبکہ انہیں اپنی استعمال شدہ بجلی مہنگے نرخوں پر دی جائے گی، اور اس نظام میں ریٹ بیلنس کا تصور ختم ہو جاتا ہے۔
’یعنی ایک ایسی صنعت جو نئی نیٹ بلنگ پالیسی کے تحت کام کرے، وہ اُس پرانی انڈسٹری کا مقابلہ کیسے کر سکتی ہے جو نیٹ میٹرنگ کی سہولیات سے فائدہ اٹھا چکی ہے؟‘
اس پالیسی کی صورت میں صارفین کو نقصان برداشت کرنا پڑےگا، شرجیل احمد
سولر انرجی ایکسپرٹ شرجیل احمد سلہری کا کہنا تھا کہ گراس میٹرنگ کا سب سے بڑا اثر یہ ہوگا کہ سولر پینلز سے پیدا ہونے والی تمام بجلی ایک علیحدہ میٹر کے ذریعے گرڈ کو ایکسپورٹ کی جائے گی، اور تقسیم کار کمپنیاں یہ بجلی صارفین سے صرف 7.5 روپے فی یونٹ کے حساب سے خریدیں گی۔
انہوں نے کہاکہ دوسری طرف جب یہی صارفین گرڈ سے بجلی امپورٹ کریں گے، یعنی جب سولر بجلی ناکافی ہوگی، تو وہی بجلی انہیں 39 سے 45 روپے فی یونٹ کے حساب سے فراہم کی جائے گی۔ اس طرح ایک ہی وقت میں صارفین اپنی بنائی ہوئی سستی بجلی بیچ رہے ہوں گے اور مہنگی بجلی خرید رہے ہوں گے، جس سے انہیں واضح اور مسلسل مالی نقصان برداشت کرنا پڑےگا۔
شرجیل احمد سلہری نے مزید کہاکہ اس کے علاوہ امپورٹ ہونے والی بجلی پر تمام حکومتی ٹیکسز اور سرچارجز بھی لاگو ہوں گے، جو صارف کے بل کو مزید بڑھا دیں گے۔ یوں یہ پالیسی ڈسکوز کے لیے ایک مکمل فائدے کی صورتحال ہے، جہاں وہ سستی بجلی خرید کر مہنگے داموں بیچ سکیں گے، لیکن صارف کے لیے یہ صرف خسارے کا سودا ہے۔ اگر حکومت اور پاور کمپنیاں صارفین سے کیپیسٹی چارجز نہیں لے رہیں، تو پھر گراس میٹرنگ جیسا نظام نافذ کرنا سراسر غیر منصفانہ ہوگا۔ اس کے برعکس، یونٹ ٹو یونٹ بیلنسنگ پر مبنی نیٹ میٹرنگ یا کم از کم آف پیک آورز کے حساب سے بیلنسنگ کا نظام ہی بہتر متبادل ہے، جو صارف اور حکومت دونوں کے لیے قابلِ قبول اور پائیدار حل ہو سکتا ہے۔
ابتدائی طور پر نیٹ میٹرنگ نے صارفین کو بہت فائدہ دیا، محمد حمزہ رفیع
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے انجینیئر محمد حمزہ رفیع کا کہنا تھا کہ ابتدائی طور پر نیٹ میٹرنگ نے صارفین کو بہت فائدہ دیا۔ دن میں اضافی بجلی گرڈ کو دے کر رات کو وہی بجلی استعمال ہو جاتی تھی۔
انہوں نے کہاکہ حالیہ سالوں میں نیپرا کی جانب سے نیٹ میٹرنگ کے فی یونٹ ریٹ میں کمی کی کوششیں کی گئیں، جنہیں مارکیٹ نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا، جس سے سولر صارفین کا اعتماد متزلزل ہوا۔
یہ بھی پڑھیں: فلیٹس میں رہنے والے لوگ کیسے اور کتنے میں سولر سسٹم لگوا سکتے ہیں؟
انہوں نے مزید کہاکہ اب اگر گراس میٹرنگ نافذ ہوتی ہے تو یہ پچھلے تمام نقصانات پر ایک اور کاری ضرب ہوگی، کیونکہ اس نظام میں بجلی بیچنے کا ریٹ کم ہوگا اور خریدنے کا ریٹ پورا، اس کا مطلب ہے صارف کو ہر حال میں نقصان برداشت کرنا ہوگا۔














