ازبکستان۔افغانستان۔پاکستان ریلوے منصوبہ جسے ٹرانس افغان روڈ بھی کہا جاتا ہے ایک اہم بین الاقوامی انفراسٹرکچر پروجیکٹ ہے اور اس منصوبے کی تکمیل سے پاکستان براہ راست وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ منسلک ہو جائے گا اور نہ صرف پاکستان کی معیشت ترقی کرے گی بلکہ وسط ایشیائی ممالک کو پاکستانی بندرگاہوں تک براہ راست رسائی ملنے سے ان ممالک کا بھی فائدہ ہو گا۔
یہ بھی پڑھیں: ازبک-افغان-پاکستان ریلوے کوریڈور فریم ورک معاہدے پر دستخط ہوگئے، اسحاق ڈار کی قوم کو مبارکباد
پاکستان کے نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ، سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے جمعرات کو افغانستان کے دارالحکومت کابل میں منصوبے کے مشترکہ فزیبلٹی اسٹڈی کے فریم ورک معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں۔ دستخط کے بعد ایک ٹوئٹ کے ذریعے اسحاق ڈار نے اس منصوبے میں شامل تینوں ممالک کو مبارکباد دی اور کہا کہ یہ منصوبہ پی ڈی ایم حکومت نے 2022/23 میں شروع کیا تھا اور بطور وزیر خزانہ مجھے اس کی تکمیل کا ٹاسک دیا گیا تھا۔
منصوبے کی فنڈنگ
22 مئی کو چین کے دورے سے واپسی کے بعد اسحاق ڈار نے صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا تھا کہ چین نے اس منصوبے کی فنڈنگ کی حامی بھری ہے اور اس کے ساتھ ساتھ کابل سے اسلام آباد ہائی وی بھی چینی حکومت سی پیک ٹو ایکسٹینشن کے تحت کرے گی۔
اسحاق ڈار اور افغان وزیر کا اتفاق رائے
اسحاق ڈار نے قائم مقام افغان وزیرخارجہ امیر خان متقی سے ملاقات کی اور دونوں ملکوں نے رابطہ کاری منصوبوں پر کام کرنے پر اتفاق کیا۔
مزید پڑھیے: پاکستان تا ازبکستان ریلوے ٹریک کی راہ ہموار، منصوبے پر کام کب شروع ہوگا؟
دفتر خارجہ کے مطابق یو اے پی یا ٹرانس افغان ریلوے منصوبے کا مقصد ایک ریلوے رابطہ قائم کرنا ہے جو ازبکستان کو افغانستان کے ذریعے پاکستان سے جوڑے گا اور وسطی ایشیائی ممالک کو پاکستانی بندرگاہوں تک رسائی فراہم کرے گا۔ یہ منصوبہ علاقائی تجارت اور ٹرانزٹ کو فروغ دے کر خطے میں استحکام، ترقی اور خوشحالی میں مدد دے گا۔کابل میں تینوں شریک ممالک کے درمیان مشترکہ فزیبلٹی اسٹڈی کے فریم ورک معاہدے پر دستخط اس منصوبے پر عملدرآمد کی جانب ایک اہم قدم ہوگا۔
منصوبے کی تفصیلات
ٹرانس افغان ریلوے منصوبہ ازبکستان میں تِرمیز سے شروع ہو کر افغانستان کے شہروں مثلًا مزارِشریف اور لوگر سے ہوتے ہوئے پاکستان میں خرلاچی (خیبر کُرم) سرحدی مقام پر پہنچے گا، اور یہاں سے پاکستان میں پشاور/کوہاٹ ریلوے لائن سے جُڑ جائے گا۔ کل تقریباً 760 کلومیٹر لمبی اس ٹریک میں افغانستان میں 573 کلومیٹر کا نیا ریلوے ٹریک بنانا شامل ہے۔ اس منصوبے کی 4 سے 5 ارب ڈالر کے درمیان ہے۔
منصوبے کا شیڈول
یہ منصوبہ پہلے مرحلے میں تکنیکی تفصیلات طے کیے جانے کے بعد دوسرے مرحلے میں اِس کی فنانسنگ کی جائے گی جبکہ اِس کے بعد روٹ کو حتمی شکل دی جائے گی۔ یہ منصوبہ 2 سال میں سنہ 2027 تک مکمل ہونے کے بعد سنہ 2030 تک مکمل آپریشنل ہو سکتا ہے اور اِس ریلوے لائن کے ذریعے سے سالانہ 15 ملین ٹن سامان کی نقل و حمل کا تخمینہ ہے۔
منصوبے کے فوائد
اس منصوبے کے ذریعے پاکستان اور ازبکستان کے درمیان مال کی ترسیل کا وقت 5 دن کم ہو جائے گا اور لاگت میں 40 فیصد کمی آئے گی۔ا س راہداری سے وسطی ایشیا کے ممالک کو پاکستانی بندرگاہوں (کراچی، گوادر، پورٹ قاسم) تک براہِ راست رسائی ملے گی، جس سے عالمی منڈیوں تک رسائی آسان ہو گی۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو ازبکستان، روس، وسطی ایشیا اور جنوب ایشیا میں برآمدات میں اضافہ کی سہولت ملے گی۔
افغانستان کے لیے کیا فوائد
اس منصوبے سے افغانستان کی معیشت پر بہت خوشگوار معاشی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ وہاں نئی ملازمتیں پیدا ہو سکتی ہیں تجارت میں اضافے سے معاشی استحکام بھی افغانستان میں امن اور نتیجتاً خطے کے امن کے لیے مثبت ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اس منصوبے سے خطے میں ایک نیا معاشی محور قائم کرے گا جو وسطی ایشیا کو سمندر سے جوڑنے اور پاکستان کو ایک ٹرانزٹ ہب بنانے میں مددگار ثابت ہوگا۔
اُزبک سفیر
پاکستان میں اُزبکستان کے سفیر علی شیر تُختایوف نے 22 جون کو ایک انٹرویو میں کہا کہ پاکستان اور اُزبکستان کے درمیان گہرے تاریخی، مذہبی اور ثقافتی رشتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان کے ساتھ باہمی تجارت کا حجم اور انفراسٹرکچر کے بڑے منصوبے جیسا کہ یو اے پی ریلوے منصوبہ جلد مکمل کرنا چاہتے ہیں۔
افغان وزیر معیشت
اس سال جنوری میں افغان وزیر معیشت کے ترجمان عبدالرحمان حبیب نے اس منصوبے کے بارے میں ایک بیان میں کہا کہ اس منصوبے سے تجارت میں اضافہ ہو گا اور ملک کے اندر انفراسٹرکچر کا بڑا منصوبہ ہو گا۔ اس منصوبے سے افغان معیشت کو علاقائی مارکیٹوں تک رسائی حاصل ہو گی۔