وزارت داخلہ کے تحت کام کرنے والے سول قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مالی سال 2023-24 کے دوران جوتے، گرم کپڑے، برف، گوشت، اور دیگر اشیاء کی خریداری میں اربوں روپے خرچ کیے، لیکن اس سارے عمل میں خریداری کے قواعد و ضوابط کو بری طرح نظرانداز کیا گیا۔
انگریزی روزنامے میں شائع سینیئر صحافی انصار عباسی کی رپورٹ کے مطابق ایک سرکاری آڈٹ رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان رینجرز، فرنٹیئر کور اور کوسٹ گارڈز جیسے اداروں میں مالی بے ضابطگیوں کی ایک طویل فہرست سامنے آئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:آڈیٹر جنرل رپورٹ، مالی سال 24-2023 کی سب سے بڑی مالی بے ضابطگی کہاں ہوئی؟
رپورٹ میں غیر شفاف ٹینڈرز، بغیر فراہمی کے ایڈوانس ادائیگیاں، ٹھیکوں کی غیر قانونی توسیع، اور میرٹ کے خلاف فیصلوں پر شدید تشویش ظاہر کی گئی ہے۔
مثال کے طور پر پنجاب رینجرز نے 4 کروڑ 30 لاکھ روپے کی مالیت سے اونی جرابوں اور ہاف آستین بنیانوں کے ٹھیکے ان کمپنیوں کو دیے جو مطلوبہ معیار پر پورا نہیں اترتی تھیں، لیکن تکنیکی کمیٹی نے ان بولیوں کو ’قابل قبول‘ قرار دیا۔
آڈیٹرز نے اسے ’غیر منصفانہ رعایت‘ قرار دے کر تحقیقات اور وزارت داخلہ کے ملوث افسران کے خلاف کارروائی کی سفارش کی۔
اسی طرح ایک اور کیس میں 4 کروڑ 50 لاکھ روپے کے جوگرز کی خریداری کا ٹھیکہ ایک ایسی کمپنی کو دیا گیا جو تکنیکی طور پر نااہل تھی۔ رپورٹ میں اس پر حقائق معلوم کرنے کے لیے انکوائری کی سفارش کی گئی ہے۔
سب سے حیران کن انکشاف پاکستان کوسٹ گارڈز کا ہے، جنہوں نے نجی کمپنی کو کشتیوں کی فراہمی کے لیے 56 کروڑ روپے کی ایڈوانس ادائیگی کی، لیکن جولائی 2024 کی ڈیڈلائن تک ایک بھی کشتی فراہم نہ کی جا سکی۔ نہ صرف یہ ایڈوانس غیر مجاز تھا، بلکہ اس نے ٹینڈر کی شرائط کی صریح خلاف ورزی بھی کی۔
تازہ ترین آڈٹ کے مطابق جنوری 2025 تک کشتیوں کی فراہمی نہیں ہو سکی، جس پر کمپنی پر جرمانہ عائد کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:کوہستان کرپشن اسکینڈل: 94 کروڑ روپے مالیت کی لگژری گاڑیاں، اربوں کی جائیدادیں برآمد، اہم گرفتاریوں کا امکان
فرنٹیئر کور (شمالی خیبرپختونخوا) کے آئی جی نے 2023-24 کے دوران گوشت، دودھ، مرغی اور تیل کی خریداری پر 7.8 ارب روپے خرچ کیے، مگر اس کے لیے نئے معاہدے نہیں کیے گئے۔ پرانے معاہدوں میں قیمتیں بڑھا کر انہیں ہی توسیع دے دی گئی، جو کہ خلاف ضابطہ ہے۔
اسی طرح سبزیاں، پھل، لکڑیاں، جانوروں کی خوراک اور سامان کی ترسیل کے معاہدوں میں 2.3 ارب روپے کی غیر قانونی توسیع کی گئی۔
ڈی آئی خان میں ایف سی (جنوب) کے دفتر نے جرابیں، بنیانیں، جوگرز اور گرم پتلونوں کے لیے 29 کروڑ 70 لاکھ روپے کی ایڈوانس ادائیگیاں کیں، جب کہ کئی اشیاء وقت پر فراہم بھی نہیں کی گئیں۔ آڈیٹرز کے مطابق یہ ادائیگیاں صرف بجٹ لیپس سے بچنے کے لیے کی گئیں۔
یہ بھی پڑھیں:آئی پی پیز کی آڈٹ رپورٹ جاری، ہوشربا انکشافات سامنے آگئے
اسی دفتر نے 2 کروڑ 8 ہزار 47 جوگرز کے جوڑے 6 کروڑ 10 لاکھ روپے میں خریدے، مگر تکنیکی تقاضے پورے نہ ہونے کے باوجود ایڈوانس ادائیگیاں کی گئیں اور یہ خلاف ضابطہ اقدام پچھلے سال بھی رپورٹ ہو چکا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ’ایسی بے ضابطگی کا بار بار ہونا شدید تشویش کا باعث ہے‘۔
حیرت انگیز طور پر، ایف سی (جنوب) نے 4 کروڑ 30 لاکھ روپے صرف برف کی خریداری پر خرچ کیے، جو مطلوبہ مقدار سے کہیں زیادہ تھی اور اس کی کوئی معقول توجیہ پیش نہیں کی جا سکی۔
رینجرز سندھ نے یونیفارم کی فراہمی کے ٹھیکے 7 کروڑ 30 لاکھ روپے میں دیے، لیکن کپڑوں کے مواد کا کوئی لیبارٹری ٹیسٹ نہیں کرایا گیا۔
اسی رپورٹ میں چلتن رائفلز ایف سی (شمال) کے کمانڈنٹ پر بغیر منظوری کے ایک نجی بینک سے تنخواہوں اور الاؤنسز کی 1.8 ارب روپے کی ادائیگی کے لیے خدمات لینے پر بھی اعتراض کیا گیا ہے، جس کے لیے نہ تو کوئی اجازت لی گئی اور نہ ہی مسابقتی بولی کا کوئی عمل اپنایا گیا۔
آڈیٹرز کے مطابق اگرچہ ہر ایک مد میں رقم کم نظر آتی ہے، لیکن مجموعی طور پر یہ بے ضابطگیاں اربوں روپے کے عوامی فنڈز کی غیر ذمہ دارانہ اور غیر شفاف خرچ کی نشاندہی کرتی ہیں۔
رپورٹ میں متعدد انکوائریوں اور جوابدہی کے اقدامات کی سفارش کی گئی ہے، لیکن اصل سوال باقی ہے کہ’ کیا ذمہ داروں کو واقعی قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا؟ یا جوگرز اور برف کا یہ اسکینڈل بھی خاموشی سے پگھل جائے گا؟‘
رپورٹ کے مطابق وزارت داخلہ سے مؤقف جاننے کے لیے رابطہ کیا گیا، مگر 3 روز تک بار بار یاد دہانی کے باوجود اس کے میڈیا افسر نے کوئی جواب نہیں دیا۔