دنیا میں ہونے والے حالیہ واقعات ایک بڑی تبدیلی کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ اب دنیا میں 2 بڑے گروہ سامنے آ رہے ہیں۔ ایک طرف امریکا اور اس کے مغربی اتحادی، اور دوسری طرف ترقی پذیر ممالک کا اتحاد BRICS (برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ) ہے، جو خود کو ’عالمی اکثریت‘ یعنی Global South کی آواز سمجھتے ہیں۔
مشرق وسطیٰ، عالمی طاقتوں کا میدان جنگ
یہ کشیدگی سب سے زیادہ مشرق وسطیٰ میں واضح نظر آتی ہے۔ یہاں امریکا اور اسرائیل کی کارروائیوں کو مغربی تسلط کی علامت سمجھا جا رہا ہے، جب کہ BRICS ممالک خود کو انصاف، خودمختاری اور ایک متوازن عالمی نظام کے حامی کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔
7 جولائی کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے درمیان وائٹ ہاؤس میں ملاقات ہوئی۔ دونوں رہنماؤں نے ایران سے مذاکرات اور فلسطینیوں کو غزہ سے نکالنے کے منصوبے پر بات کی۔
یہ بھی پڑھیں:کیا مشرق وسطیٰ میں جاری تصادم عالمی جنگ میں تبدیل ہو جائے گا؟
نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ کچھ ممالک فلسطینیوں کو قبول کرنے پر تیار ہیں، اور یہ انخلا ’رضاکارانہ‘ ہوگا۔ تاہم ناقدین اسے ’نسلی صفائی‘ یا Ethnic Cleansing قرار دے رہے ہیں۔
ایران سے متعلق پیشرفت
ملاقات کے دوران ٹرمپ نے اعلان کیا کہ وہ ایران سے بات چیت کے لیے تیار ہیں، اور جلد مذاکرات ہوں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر حالات درست ہوئے تو ایران پر پابندیاں ہٹائی جا سکتی ہیں۔
ایران کے نو منتخب صدر مسعود پزشکیان نے بھی کہا کہ وہ سفارتی راستے سے کشیدگی کم کرنا چاہتے ہیں۔ مگر بظاہر دونوں فریق محض وقتی فائدے کے لیے بات کر رہے ہیں۔
مظاہرے اور تنقید
اسی دن واشنگٹن میں ہزاروں لوگ نیتن یاہو کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ مظاہرین نے فلسطینی پرچم اٹھا رکھے تھے اور مطالبہ کیا کہ امریکا اسرائیل کی فوجی امداد بند کرے۔ انہوں نے نیتن یاہو کو جنگی جرائم پر عالمی عدالت میں پیش کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔
یہ بھی پڑھیں:’تیسری عالمی جنگ شروع ہو چکی‘، دیمیتری ترینن کا تجزیہ
غزہ سے فلسطینیوں کو نکالنے کا منصوبہ
اسرائیلی وزیر دفاع نے اعلان کیا ہے کہ جنوبی غزہ کے شہر رفح میں ایک خیمہ بستی قائم کی جائے گی، جہاں 6 لاکھ فلسطینیوں کو منتقل کیا جائے گا۔ بعد ازاں انہیں مکمل طور پر غزہ سے باہر نکال دیا جائے گا۔ مبصرین اسے ’جبری نقل مکانی‘ اور ’نسل کشی‘ کی ایک شکل قرار دے رہے ہیں۔
BRICS ممالک کا سخت ردعمل
نیتن یاہو کے دورۂ امریکہ کے ایک دن بعد BRICS ممالک نے ایک سخت بیان جاری کیا جس میں امریکا اور اسرائیل کے ایران پر حملوں کی مذمت کی گئی۔
انہوں نے غزہ میں اسرائیلی فوج کے انخلا، جنگ بندی اور فلسطینی ریاست کے قیام کا مطالبہ کیا۔ BRICS کا مؤقف تھا کہ غزہ، فلسطین کا لازمی حصہ ہے اور اسے مکمل آزادی دی جانی چاہیے۔
امریکا کی جوابی دھمکیاں
BRICS کے بیان کے بعد ٹرمپ نے برازیل سمیت کئی ممالک کو تجارتی پابندیوں کی دھمکیاں دیں۔ انہوں نے الزام لگایا کہ BRICS ڈالر کی جگہ کوئی نئی کرنسی متعارف کرا کر امریکی معیشت کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:ایٹمی ہتھیاروں سے لیس نیا عالمی نظام، ایک خطرناک مستقبل
برازیل کے صدر نے جوابی طور پر امریکی مصنوعات پر 50 فیصد ٹیکس لگانے کا اعلان کر دیا۔
دنیا 2 حصوں میں تقسیم ہو رہی ہے
ان تمام واقعات سے صاف ظاہر ہے کہ دنیا اب 2 بڑے گروہوں میں تقسیم ہو رہی ہے۔ ایک طرف امریکا اور اس کے اتحادی تو دوسری طرف BRICS اور دنیا کے ترقی پذیر ممالک، جو زیادہ انصاف، خودمختاری، اور نئے عالمی نظام کے حق میں ہیں۔
مشرق وسطیٰ بدترین بحران کا شکار
مشرق وسطیٰ اس عالمی کشمکش کا میدان بن چکا ہے۔ غزہ میں جنگ اور انسانی بحران جاری ہے، ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی بڑھ رہی ہے، اور ترکی سمیت دیگر عرب ممالک بھی دھیرے دھیرے غیر مغربی بلاک کے قریب ہو رہے ہیں۔ یہ صورتحال صرف خطے ہی نہیں، پوری دنیا کے مستقبل پر اثر ڈال سکتی ہے۔
مشرق وسطیٰ کے تنازعات مقامی نہیں رہے۔ یہ اب دنیا کی بڑی طاقتوں کے درمیان ایک بڑی جنگ کا حصہ بن چکے ہیں، جہاں پرانے عالمی نظام کو چیلنج کیا جا رہا ہے۔ نئی صف بندیاں ہو رہی ہیں، اور دنیا میں ایک نیا توازن ابھر رہا ہے۔
تحریر: مراد سادیگ زادے، صدر مڈل ایسٹ اسٹڈیز سینٹر، ماسکو/بشکریہ رشیا ٹوڈے۔