سپریم کورٹ نے انسداد دہشتگردی عدالت کراچی کے ایڈمنسٹریٹو جج ذاکر حسین کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا ہے کہ ہائیکورٹ ججز کو جونیئر ججز کے خلاف سخت ریمارکس سے پہلے تحقیق اور احتیاط لازم ہے۔
یہ فیصلہ جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سنایا، جس میں جسٹس مظہر نے 12 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا۔
یہ بھی پڑھیں:سپریم کورٹ میں زیر سماعت کیس کی عدالتی دستاویزات چوری
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں سندھ ہائیکورٹ کے ان سخت ریمارکس کو کالعدم قرار دے دیا جو جج ذاکر حسین کے خلاف دیے گئے تھے۔
کیس کا پس منظر یہ ہے کہ سندھ ہائیکورٹ نے انسداد دہشتگردی عدالت کے دو عدالتی احکامات کو کالعدم قرار دیا تھا۔ ان میں ایک ملزم کو پولیس کے بجائے جوڈیشل کسٹڈی میں دینے اور دوسرا JIT کے قیام کا حکم شامل تھا۔
عدالت نے ملزم کے والد کی جج کے چیمبر میں موجودگی کی بنیاد پر بدنیتی کا بھی الزام لگایا تھا۔
سندھ ہائیکورٹ نے جج ذاکر حسین سے انتظامی اختیارات واپس لینے کی سفارش کی تھی جس پر سندھ حکومت نے 26 فروری 2025 کو ان سے اختیارات واپس لے لیے تھے۔ بعد ازاں جج ذاکر حسین نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔
سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ پٹیشنر کو وضاحت کا موقع دیے بغیر سخت الزامات لگائے گئے، جو آئین کے آرٹیکل 10-A (منصفانہ سماعت کا حق) کی خلاف ورزی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:سپریم کورٹ کا اہم فیصلہ: ترقی ہر سرکاری ملازم کا بنیادی حق قرار
عدالت نے کہا کہ سخت عدالتی ریمارکس ججز کے کیریئر پر دائمی اثر چھوڑتے ہیں اور ایسی رائے اخبارات یا عدالتی فیصلوں میں آجائے تو ہمیشہ کے لیے ریکارڈ کا حصہ بن جاتی ہے۔
عدالت نے کہا کہ ایسے الزامات خفیہ رپورٹ کی صورت میں چیف جسٹس ہائیکورٹ کو بھیجے جائیں، جبکہ جونیئر ججز کی راہنمائی ہونی چاہیے، نہ کہ عوامی سطح پر تنقید۔
سپریم کورٹ کے مطابق پٹیشنر کا انتظامی عہدہ بحال نہیں کیا گیا کیونکہ اس وقت تک نیا جج تعینات ہو چکا تھا۔ تاہم عدالت نے واضح کیا کہ جج کی تحقیر عدلیہ پر عوامی اعتماد کو متاثر کرتی ہے اور جج سے غلطی ہو بھی جائے تو بدنیتی ثابت کرنا ضروری ہے۔
فیصلے میں زور دیا گیا کہ عدلیہ میں باہمی احترام، ڈسپلن، اور انفرادی وقار کو مقدم رکھا جائے۔