اداکارہ حمیرا اصغر کے بارے میں باتیں ابھی ہو رہی ہیں۔ یہ باتیں ہوتی رہنی چاہئیں۔ اور اس وقت تک ہوتی رہنی چاہئیں حتیٰ کہ بیٹیاں اور والدین ایک ہوجائیں۔
حمیرا اصغر کی موت ایک بڑے سماجی بحران کی زوردار عکاسی کرتی ہے۔ اور یہ سماجی بحران کسی قیامت سے کم نہیں۔ ایک غالب خیال ہے کہ وہ والدین کے منع کرنے کے باوجود کراچی منتقل ہوئی، اپنے لیے اپنی مرضی کا راستہ منتخب کیا۔ والدین اس کی ’خود سری‘ پر اس قدر پتھر دل ہوئے کہ انھوں نے سمجھ لیا کہ بس! اب بیٹی ان کے لیے مر گئی۔
مرحوم منیر نیازی کے یہ اشعار ہر ایک کو ازبر ہیں کہ
کُجھ اُنج وی راہواں اوکھیاں سن
کُجھ گل وچ غم دا طوق وی سی
کُجھ شہر دے لوک وی ظالم سَن
کُجھ مینوں مرن دا شوق وی سی
ہم ہلکے پھلکے انداز میں پڑھتے ہیں، ہلکے پھلکے انداز میں سنتے ہیں اور پھر آگے بڑھ جاتے ہیں۔
لیکن آج ذرا حمیرا اصغر کی پراسرار موت کو یاد کرکے، بیڈ روم کے فرش پر پڑے پڑے گل سڑ جانے والی اس کی لاش کو یاد کرکے منیر نیازی کے یہ اشعار ایک بار پھر پڑھ لیے جائیں تو دیکھیں کہ کیا اذیت ناک تصویر بنتی ہے!
اگلے روز حمیرا اصغر کے بزرگ والد اور والدہ نے کہا کہ ان کا بیٹی کے ساتھ کسی قسم کا کوئی قطع تعلق نہیں تھا۔ اس سے پہلے لاش وصول کرتے ہوئے بھائی نے بھی کہا کہ کوئی قطع تعلق نہیں تھا۔ بھابھی نے کہا کہ وہ حمیرا کے ساتھ رابطے میں رہتی تھی، آخری بار اکتوبر 2024 میں رابطہ ہوا تھا۔ اور حمیرا اصغر نے بھی ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ والدین سے مسلسل رابطے میں رہتی ہیں۔
سچ یہی ہے کہ بھلا کب والدین اولاد سے قطع تعلق کرسکتے ہیں، وہ قطع تعلقی کا اعلان کرکے بھی تعلق قطع نہیں کرسکتے۔ کب اولاد دل و جان سے جدا ہوتی ہے!
لیکن کچھ سوالات ذہنوں میں مسلسل کلبلا رہے ہیں۔ لوگ یہ سوالات مسلسل پوچھ رہے ہیں۔ اور ان سوالات پر ہر کوئی دانتوں تلے انگلیاں دبائے ہوئے ہے کہ بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ بیٹی مہینوں پہلے کراچی میں بے بسی کی موت مر جائے یا قتل کردی جائے اور والدین، بہن بھائیوں کو خبر ہی نہ ہو۔
قطع تعلقی نہیں تھی تو والدین، بہن بھائیوں نے 24 اکتوبر کو رابطہ کیا ہوگا۔ رابطہ نہ ہوسکنے پر اُس روز ایک بار نہیں بار بار کال کی ہوگی۔ پھر یہ سوچ کر فون ایک طرف رکھ دیا ہوگا کہ حمیرا کہیں مصروف ہوگی، کرلے گی خود رابطہ۔ اگلے دن بھی رابطہ نہ ہونے پر قدرے بے چینی پیدا ہوئی ہوگی، اس سے بھی اگلے دنوں میں رابطہ نہ ہونے پر ان کے ہاں مزید بے چینی پیدا ہوئی ہوگی!
قطع تعلقی نہیں تھی تو بیٹی نے بتایا ہوگا کہ وہ کراچی میں فلاں علاقے میں، فلاں نمبر فلیٹ میں رہائش پذیر ہے۔ جب والدین، بہن بھائیوں کے ہاں بے چینی بڑھی ہوگی تو کوئی کراچی گیا ہوگا یا کراچی میں کسی جاننے والے سے کہا ہوگا کہ ذرا ! حمیرا کے فلیٹ تک جانا، اس کا پتہ کرنا کہ کیوں رابطہ نہیں کر رہی وہ؟
لیکن سوال یہ ہے کہ یہ کیسے ہوگیا، رابطہ نہ ہونے پر ایک ہفتہ گزر گیا، ایک مہینہ گزر گیا، 2، 4، 6، 9مہینے گزر گئے لیکن والدین، بہن بھائیوں میں کوئی فکرمند نہ ہوا، کسی کے دل میں بے چینی پیدا نہ ہوئی۔ انھیں حمیرا کے مرنے کی خبر تب ملی جب ساری دنیا کو خبر مل چکی تھی۔
حمیرا اصغر کے موبائل تفتیشی اداروں کے پاس ہیں، وہ ان کا سارا ڈیٹا حاصل کرچکے ہیں، وہ جہاں دیگر بہت سے سوالات کے جوابات حاصل کر رہے ہوں گے، وہاں انہیں یہ بھی بخوبی اندازہ ہوچکا ہوگا کہ والدین، بہن بھائیوں میں سے کس نے کتنی بار حمیرا سے رابطہ کرنے کی کوشش کی۔
موبائلوں کے ڈیٹا سے یہ بھی اندازہ ہوچکا ہوگا کہ حمیرا جس انڈسٹری کا حصہ بننے کے لیے لاہور سے کراچی منتقل ہوئی، اس انڈسٹری کے کتنے لوگ اور کون کون سے لوگ اس سے رابطے میں تھے؟ ان کا رابطہ کس قدر تھا اور کس نوعیت کا تھا؟ اور اکتوبر 2024 کے بعد کس نے حمیرا کی کتنی خبر لی؟
برا ہو دور جدید کا، جب ہر فرد تنہا ہوچکا ہے۔ ورنہ بھلے وقتوں میں کوئی ایک فرد بھی تنہا نہیں ہوتا تھا، ہر فرد معاشرے میں، کم از کم اپنے سماجی حلقے میں نیوکلیس کی حیثیت رکھتا تھا۔ اب پروٹان اور نیوٹران ہی ایک جگہ پر رہنے کو تیار نہیں، ایسے میں نیوکلیس کا وجود کہاں ہو!
رائے عامہ کا جائزہ لینے والے ادارے ’گیلپ‘ کے گزشتہ برس کے ایک جائزے کے مطابق پاکستان میں 51فیصد افراد خود کو زیادہ یا پھر بہت زیادہ تنہا محسوس کرتے ہیں۔ وہ مایوس رہتے ہیں کہ مشکل میں کوئی ان کی مدد کو نہیں آئے گا۔ ان لوگوں کا اس پاکستانی معاشرے سے تعلق ہے جہاں 67سے 70فیصد لوگ مشترکہ خاندانی نظام کے تحت رہنا پسند کرتے ہیں۔ان میں مردوں کی شرح 69فیصد جبکہ خواتین کی شرح 54فیصد ہے۔
اب سننے کو ملا ہے کہ کراچی میں ڈرامہ انڈسٹری کے کچھ لوگ اب ایسے لوگوں کی ہر وقت خبر رکھنے کا انتظام کرنے لگے ہیں جو حمیرا اصغر کی طرح تنہا رہتے ہیں۔ وہ ایسی انجمن بنائیں گے کہ تنہا رہنے والے بھی تنہا نہ ہوں۔ ایسا ہوجائے تو یہ اچھی بات ہے ورنہ بہت سی انجمنیں ہمارے معاشرے میں وجود میں آتی ہیں لیکن ہر انجمن کے کرتا دھرتا انجمن کو اپنے ہی مفادات کے حصول کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اور جن کے لیے انجمن بنتی ہے، وہ بے چارے بے بسی کی موت مر جاتے ہیں، حمیرا اصغر کی طرح۔
بتایا گیا ہے کہ بڑے بڑے خواب لے کر کراچی منتقل ہونے والی حمیرا اصغر کو ابتدا میں کچھ کام ملا، لیکن پھر کوئی کام نہ ملا۔ ذرا سوچیے تو سہی کہ اس نے کس کس کے سامنے اپنا پروفائل رکھا ہوگا، کس کس کو یقین دلایا ہوگا کہ وہ باصلاحیت ہے، آزما کر دیکھ لیں۔ اور پھر کس کس نے اس کو امیدیں دلائی ہوں گی، کس کس نے اسے خواب دکھائے ہوں گے لیکن جھوٹے۔ ہوسکتا ہے کسی نے اس کے خوابوں کو بُری طرح مسل ڈالا ہو۔ اور پھر حمیرا اصغر نے کس قدر بے بسی محسوس کی ہوگی، سات برسوں کے اتنے سارے دن اور راتیں کس طرح گزری ہوں گی، ذرا حمیرا اصغر کی جگہ خود کو رکھ کر محسوس کیجیے۔
اگر کوئی برا محسوس نہ کرے تو عرض کروں کہ حمیرا اصغر نام کی بیٹی ایک ایسے معاشرے میں روشن، شاندار مستقبل تعمیر کرنا چاہتی تھی جہاں مفاد پرستی کا دور دورہ ہے اور اخلاص اپنا سا منہ لے کر رہ جاتا ہے۔ کوئی دوسرے کی مدد کرنا چاہے تو نہیں کر پاتا کہ اس کی استطاعت کا دائرہ بہت زیادہ سکڑ چکا ہے۔ ہمارے مفاد پرست، دھوکے باز، جھوٹے اور مکار حکمرانوں کی پالیسیوں کے سبب ہمارے معاشرے کی شکل خوب بگڑ چکی ہے۔
ہر فرد اپنی ذات تک ہی محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ اب کتنے لوگ ہیں جو ایک دوسرے سے اکثروبیشتر ملتے جلتے ہیں، ایک دوسرے کی خبر رکھتے ہیں۔ سوچیں ذرا! پہلے لوگ ایک دوسرے سے کس طرح ہر وقت جڑے رہتے تھے! ایک دوسرے کی خبر رکھتے تھے، مشکل اور آسانی میں ایک دوسرے کے ساتھ ہوتے تھے، لیکن اب اپنے بھی مشکل میں اپنوں کے ساتھ نہیں ہوتے۔ اس تناظر میں حمیرا اور ایسی ہی دیگر بیٹیاں بے بسی کی موت مرتی ہیں تو ذمہ دار حکمران بھی ہیں۔
حمیرا اصغر کے بارے میں باتیں بہت ہوچکی ہیں لیکن ابھی بہت سی باتیں ہونی چاہئیں۔ یہ باتیں ہوتی رہنی چاہئیں حتیٰ کہ بیٹیاں اور والدین ایک ہوجائیں۔ نہ کوئی بیٹی والدین سے الگ ہو اور نہ ہی والدین بیٹی کو اس کی زندگی میں مرا ہوا سمجھ لیں۔ ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر ، ہنسی خوشی ترقی و خوشحالی کی شاہراہ پر چلیں۔ اگر کہیں اختلاف پیدا ہوجائے تو ہر قیمت پر درمیانی راہ نکالیں۔ اور کبھی کوئی بھی راہ الگ نہ کرے۔ کیونکہ سگے رشتے ایک دوسرے کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔
حمیرا اصغر کی بے بسی والی موت کا ذکر اس وقت ہوتے رہنا چاہیے، یہاں تک کہ ہمارے معاشرے میں پروٹان اور ںیوٹران ایک جگہ اکٹھے ہوجائیں اور ہر فرد معاشرے کا نیوکلیس بن جائے۔
ایسا کیسے ہوگا؟
اس کے لیے ہمیں سوچنا ہے اور ہر تدبیر اختیار کرنی ہے۔ بالخصوص ہمیں پتہ چلانا ہوگا کہ ہمارے بزرگ کیسے ایک ہو کر رہتے تھے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔