یورپی یونین نے بھارت کی دوسری سب سے بڑی تیل صاف کرنے والی ریفائنری ودی نار (Vadinar) پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ یہ جنوبی ایشیائی ملک میں پہلی ریفائنری ہے جسے یورپی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:یورپی یونین نے روس پر 18ویں پابندیوں کا اعلان کر دیا
ودی نار ریفائنری بھارتی ریاست گجرات میں واقع ہے اور اسے ایک نجی بھارتی-روسی کمپنی نایارا انرجی (Nayara Energy) چلاتی ہے، جس میں روسی کمپنی Rosneft کا 49 فیصد حصہ ہے۔
⚡️NEW: EU's 18th Sanctions Package Includes Restrictions on 🇷🇺 Rosneft-Linked Oil Refinery in India – Commission VP Kaja Kallas
The Russian energy giant has an agreement with Reliance Industries to supply around 500,000 barrels of crude daily – one of 🇮🇳 & 🇷🇺's largest deals.… pic.twitter.com/bVawoMt2Lb
— RT_India (@RT_India_news) July 18, 2025
یورپی یونین نے روس کے خلاف یوکرین جنگ کے تناظر میں پابندیوں کا اٹھارہواں پیکیج جاری کیا ہے، جس میں اس بھارتی ریفائنری کے علاوہ ان چینی بینکوں کو بھی ہدف بنایا گیا ہے جن پر پابندیوں سے بچاؤ میں مدد دینے کا الزام ہے۔
یہ بھی پڑھیں:پاکستان نے بھارتی طیاروں پر فضائی حدود کی پابندی 23 اگست تک بڑھا دی
یورپی خارجہ امور کی سربراہ کایا کالاس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ پہلا موقع ہے کہ ہم نے کسی فلیگ رجسٹری (جہازوں کی سرکاری رجسٹری) اور بھارت میں Rosneft کی سب سے بڑی ریفائنری کو پابندیوں کی زد میں لائے ہیں۔
ودی نار ریفائنری
ودی نار ریفائنری کی سالانہ پیداوار 2 کروڑ میٹرک ٹن ہے، اور یہ یورپی مارکیٹ کے لیے روسی خام تیل صاف کرتی ہے۔ یورپی یونین کی طرف سے بھارت کی فلیگ رجسٹری پر پابندی کا مطلب ہے کہ وہ وہ روسی تیل لے جانے والے کسی بھی بھارتی پرچم بردار جہاز کو سزا دے سکتی ہے۔
کالاس نے ان تازہ اقدامات کو روس کے خلاف یورپی یونین کی سب سے مؤثر پابندیوں میں سے ایک قرار دیا اور کہا کہ ہم کریملن کے جنگی بجٹ کو مزید کم کر رہے ہیں، 105 مزید ’شیڈو فلیٹ‘ (پوشیدہ جہازوں) اور ان کے معاونین کو نشانہ بنا رہے ہیں، اور روسی بینکوں کی مالی رسائی کو محدود کر رہے ہیں۔
تاہم، یورپی یونین کے بھارت میں سفیر ہروی ڈلفن (Herve Delphin) نے واضح کیا ہے کہ یورپی یونین نے کبھی بھی کسی ملک کو روسی تیل خریدنے سے منع نہیں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر بھارت نے روسی تیل کم قیمت پر خریدا ہے تو یہ بھارت کے لیے فائدہ مند ہے، کیونکہ اس سے توانائی سستی ملتی ہے۔
روسی یوکرین جنگ کے آغاز (2022) کے بعد سے روس بھارت کا سب سے بڑا تیل فراہم کنندہ بن چکا ہے۔ مئی 2025 میں بھارت نے روزانہ تقریباً 18 لاکھ بیرل روسی تیل درآمد کیا، جو گزشتہ 10 ماہ میں بلند ترین سطح ہے۔
بھارت نے مغرب کی جانب سے روسی تیل کی درآمد روکنے کے مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے واضح کیا کہ اپنے عوام کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنا ہماری اولین ترجیح ہے، اور ہم عالمی حالات و مواقع کو مدِنظر رکھتے ہوئے فیصلے کرتے ہیں۔