جنسی زیادتی کی شکار خواتین: پاکستان میں سیکیورٹی اور سیفٹی کے کیا قوانین ہیں؟

منگل 22 جولائی 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پنجاب ویمن پروٹیکشن اتھارٹی کی چیئرپرسن حنا پرویز بٹ کی جانب سے جنسی زیادتی کا شکار خواتین کے گھروں کے دوروں اور ان کی سوشل میڈیا پر ویڈیوز مسلسل اپلوڈ کی جا رہی ہیں, حنا پرویز کے مطابق ان کا مقصد متاثرہ خواتین کے ساتھ اظہارِ یکجہتی اور حکومتی تعاون کا مظاہرہ کرنا ہے، لیکن یہ طرزِ عمل سوشل میڈیا پر شدید تنقید کی زد میں ہے کیونکہ بیشتر ویڈیوز میں متاثرہ خواتین کے گھر، محلے اور اہل علاقہ بھی دکھائی دے رہے ہوتے ہیں۔

واضح رہے کہ ایکس اکاؤنٹ پر شہر اور علاقے کا ذکر بھی کیا جاتا ہے، سوشل میڈیا صارفین کا ان ویڈیوز پر کہنا ہے کہ یہ عمل متاثرہ خواتین اور ان کے خاندان کی شناخت ظاہر کرنے کے مترادف ہے جو نہ صرف غیراخلاقی بلکہ قانونی طور پر بھی قابل اعتراض ہے، پاکستان میں زیادتی کی شکار خواتین کی سیکیورٹی اور سیفٹی کے حوالے سے کیا قوانین ہیں؟ اور دنیا بھر میں کیا طرز عمل ہے؟

یہ بھی پڑھیں: خواتین سے زیادتی کا مقدمہ: اسکول پرنسپل کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا

آئینی ماہر حافظ احسان احمد کھوکھر نے جنسی تشدد کا شکار خواتین کی سوشل میڈیا اور میڈیا پر شناخت ظاہر کرنے کے حوالے سے کہا کہ متاثرہ خواتین کے گھروں میں کیمروں اور لوگوں کے ہجوم کے ساتھ داخل ہونے کی ویڈیوز اور ان کی آن لائن تشہیر نہ صرف غیر اخلاقی ہے بلکہ آئین، قانون اور انسانی وقار کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

حافظ احسان نے واضح کیا کہ پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 14(1) ہر شہری کی عزت اور گھر کی پرائیویسی کو ناقابلِ تنسیخ حق قرار دیتا ہے، جو صرف ایک اخلاقی اصول نہیں بلکہ ایک مکمل قانونی تحفظ ہے، ایسے کسی بھی واقعے میں متاثرہ فرد کی شناخت ظاہر کرنا ان کے بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے، جو نہ صرف ذہنی اذیت کا باعث بن سکتی ہے بلکہ عمر بھر کا سماجی دباؤ اور بدنامی بھی پیدا کر سکتی ہے۔

مزید پڑھیں: زیادتی کی ویڈیو بنا کر بلیک میل کیا گیا، کراچی کے اسکول پرنسپل کے خلاف 2 خواتین کے انکشافات

’پاکستان کے انسدادِ زیادتی قانون 2021 میں بھی واضح قانونی شقیں موجود ہیں، جن میں سیکشن 11 متاثرہ کی شناخت افشا کرنے پر پابندی عائد کرتا ہے، جبکہ سیکشن 13 کے تحت عدالتی کارروائی کو خفیہ رکھا جانا لازم ہے۔‘

حافظ احسان نے پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 509 کا حوالہ بھی دیا جو کسی فرد کی عزت یا پرائیویسی کے خلاف کسی بھی قسم کے الفاظ یا حرکات کو جرم قرار دیتی ہے۔ علاوہ ازیں، پیمرا کے الیکٹرانک میڈیا کوڈ آف کنڈکٹ 2015 کے تحت میڈیا کو متاثرین کی شناخت ظاہر کرنے یا ایسے واقعات کو سنسنی خیز انداز میں پیش کرنے سے بھی سختی سے منع کیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: عالمی برادری بھارتی افواج کی زیر حراست خواتین سے زیادتی کا نوٹس لے، مشعال ملک

حافظ احسان کے مطابق جو لوگ متاثرہ خواتین کے حالات کو ریکارڈ کر کے سوشل میڈیا پر نشر کرتے ہیں، چاہے وہ میڈیا سے ہوں، عوامی نمائندے ہوں یا سیاسی شخصیات، وہ نہ صرف اخلاقی طور پر قابلِ مذمت ہیں بلکہ قانونی کارروائی کا بھی سامنا کر سکتے ہیں۔

انہوں نے خبردار کیا کہ اس طرح کی سرگرمیاں متاثرہ خواتین کے لیے دوبارہ صدمے کا باعث بن سکتی ہیں اور دیگر متاثرین کو انصاف کے حصول سے روک سکتی ہیں، کیونکہ انہیں عوامی شرمندگی اور تمسخر کا خوف ہوتا ہے۔

مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں خواتین کے خلاف جنسی زیادتی کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے

عالمی سطح پر بھی ایسے اقدامات کو سنگین خلاف ورزی تصور کیا جاتا ہے، حافظ احسان نے بین الاقوامی معاہدوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے ان معاہدوں پر دستخط کر رکھے ہیں، جن میں ہر فرد کی پرائیویسی، عزت اور گھر کے تقدس کو لازمی طور پر محفوظ رکھنے کی ضمانت دی گئی ہے۔

اسی طرح اقوام متحدہ کے اعلامیہ برائے انصاف برائے متاثرین (1985) میں بھی ریاستوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ متاثرہ افراد کی شناخت کو خفیہ رکھا جائے، ان کے وقار کا تحفظ کیا جائے، اور انہیں دوبارہ صدمے سے بچایا جائے۔

مزید پڑھیں: خواتین کے ساتھ جیل میں زیادتی کے الزامات من گھڑت ہیں: آئی جی پنجاب

حافظ احسان کھوکھر کا کہنا تھا کہ وزارت انسانی حقوق، خواتین کے تحفظ کے ادارے اور صوبائی حکومتیں فوری طور پر متاثرہ خواتین کی شناخت کے تحفظ کے لیے واضح اور مضبوط گائیڈ لائنز جاری کریں اور اس پر سختی سے عمل کروایا جائے، انہوں نے زور دیا کہ انصاف، تحفظ اور متاثرہ کی بحالی پر توجہ دی جائے، نہ کہ میڈیا کوریج یا شہرت حاصل کرنے پر۔

’کسی بھی مہذب اور انسانی حقوق پر مبنی معاشرے میں جنسی تشدد کے متاثرین کی عزت اور رازداری کو ہر صورت میں مقدم رکھا جانا چاہیے، یہ صرف اختیاری اصول نہیں بلکہ ایک قانونی اور اخلاقی فرض ہے، جس پر عمل کرنا تمام اداروں کی ذمہ داری ہے۔‘

مزید پڑھیں: گوجرانوالہ میں ڈکیتی کے دوران خواتین سے زیادتی کرنے والے 3 ملزمان گرفتار

اس حوالے سے بیرسٹر عروج بخاری کا کہنا تھا کہ زیادتی کے شکار افراد کی مدد کرتے وقت ان کی عزتِ نفس اور رازداری کا مکمل خیال رکھنا بے حد ضروری ہے، انہوں نے واضح کیا کہ یہ نہ صرف اخلاقی فریضہ ہے بلکہ قانونی حق بھی ہے، جیسا کہ آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 14 میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے، جو انسان کی عزت اور نجی زندگی کی حرمت کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔

’اس کے علاوہ بین الاقوامی قوانین بھی ان حقوق کی ضمانت دیتے ہیں، جیسا کہ انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے کے آرٹیکل 12 اور شہری و سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے کے آرٹیکل 17 میں درج ہے۔‘

مزید پڑھیں: معذور خواتین اور لڑکیاں آن لائن ہراسانی کا زیادہ نشانہ

بیرسٹر عروج بخاری نے بتایا کہ زیادتی سے متاثرہ افراد کے لیے تعاون اور بحالی کی کوششیں نہایت قابلِ تحسین ہیں، لیکن یہ اقدامات انتہائی حساسیت اور احتیاط کے ساتھ کیے جانے چاہییں تاکہ ان افراد کے بنیادی حقوق مجروح نہ ہوں۔

’اگر مدد کے نام پر کسی کی نجی زندگی میں مداخلت کی جائے یا ان کی عزتِ نفس کو ٹھیس پہنچے تو یہ خود ایک نئی زیادتی تصور ہوگی، جس سے ہر صورت اجتناب کرنا چاہیے۔‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp