تاریخی سرخ لاری: سعودی عرب اور خلیج کی ثقافتی پہچان

بدھ 23 جولائی 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سرخ رنگ کی مشہور لاری، جسے مقامی طور پر ’لاری‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، خلیجی ممالک اور خصوصاً سعودی عرب کی ایک اہم ثقافتی علامت بن چکی ہے۔ 1940 سے 1970 کی دہائی کے درمیان، جب سفر کے ذرائع محدود تھے اور حالات مشکل، تو اسی سرخ لاری نے نقل و حمل میں بنیادی کردار ادا کیا، ان لاریوں نے دور دراز دیہاتوں کو شہروں سے جوڑنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

سعودی پریس ایجنسی کی ایک رپورٹ کے مطابق مورخ عبداللہ الزہرانی کا کہنا ہے کہ اس دور میں مقامی باشندے اور حجاج کرام لمبے سفر کے لیے انہی لاریوں پر انحصار کرتے تھے، جو کئی دنوں پر محیط ہوتے تھے۔ ’ سرخ لاری نقل و حمل میں ایک انقلاب کی حیثیت رکھتی تھی، خاص طور پر خاندانوں اور بچوں کے لیے آرام دہ ذریعہ سفر کے طور پر۔‘

یہ بھی پڑھیں:سعودی عرب میں چھوٹے اسٹورز اور اسٹالز پر تمباکو کی مصنوعات کی فروخت پر پابندی عائد

صرف مسافروں کی آمد و رفت ہی نہیں بلکہ ان لاریوں کی اقتصادی اہمیت بھی غیر معمولی تھی۔ ’یہ گاڑیاں کھانے پینے کی اشیاء کو بازاروں اور تجارتی مراکز تک پہنچاتیں، جبکہ تاجر کھجوریں، مصالحے، مویشی اور کپڑے جیسا سامان بھی ان کے ذریعے منتقل کرتے، جس سے دیہی تجارت کو فروغ اور خطے کی باہمی وابستگی کو تقویت ملی۔‘

طائف کے جنوبی دیہاتوں سے تعلق رکھنے والے مقامی شہری سالم الابدالی نے بتایا کہ ان کے والد ایک سرخ لاری چلاتے تھے، انہوں نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ ان لاریوں کا سرخ رنگ، ہاتھ سے بنایا گیا سن روف، دیودار کی لکڑی کے فرش اور ہاتھ سے سلی ہوئی کپڑے کی چھت، جو مسافروں کو موسم کی شدت سے بچاتی تھی، سب کچھ منفرد تھا۔

سالم الابدالی کے مطابق، سرخ لاری اونٹوں کے بعد مقامی آبادی کے لیے سب سے اہم سفری ذریعہ تھی اور اس سے کئی داستانیں، تجربات اور سفر کے دوران گائے جانے والے لوک نغمے جُڑے ہوئے ہیں۔ بعض ڈرائیور تو دیہاتیوں کو مفت میں بھی سفری سہولت دیتے تھے، جو اس دور کی باہمی مدد اور سماجی یکجہتی کی اعلیٰ مثال تھی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

ہم نے اوور ورکنگ کو معمول بنا لیا، 8 گھنٹے کا کام کافی: دیپیکا پڈوکون

27ویں آئینی ترمیم کیخلاف احتجاجاً لاہور ہائیکورٹ کے جج جسٹس شمس محمود مرزا بھی مستعفی

عالمی جریدوں نے تسلیم کیا کہ عمران خان اہم فیصلے توہمات کی بنیاد پر کرتے تھے، عطا تارڑ

جازان میں بین الاقوامی کانفرنس LabTech 2025، سائنس اور لیبارٹری ٹیکنالوجی کی دنیا کا مرکز بنے گی

دہشتگرد عناصر مقامی شہری نہیں، سرحد پار سے آتے ہیں، محسن نقوی کا قبائلی عمائدین خطاب

ویڈیو

گیدرنگ: جہاں آرٹ، خوشبو اور ذائقہ ایک ساتھ سانس لیتے ہیں

نکاح کے بعد نادرا کو معلومات کی فراہمی شہریوں کی ذمہ داری ہے یا سرکار کی؟

’سیف اینڈ سیکیور اسلام آباد‘ منصوبہ، اب ہر گھر اور گاڑی کی نگرانی ہوگی

کالم / تجزیہ

افغان طالبان، ان کے تضادات اور پیچیدگیاں

شکریہ سری لنکا!

پاکستان کے پہلے صدر جو ڈکٹیٹر بننے کی خواہش لیے جلاوطن ہوئے