پاکستان کے نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مشرق وسطیٰ اور فلسطین کے مسئلے پر کھلی بحث کے دوران فلسطینی عوام کے لیے مکمل ریاست، انصاف اور بین الاقوامی قانون کے نفاذ کا بھرپور مطالبہ کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کے لیے فیصلہ کن اقدامات کرنے ہوں گے، سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ
انہوں نے کہا کہ فلسطینی عوام کئی دہائیوں سے بدترین قبضے، نسلی امتیاز اور انسانی حقوق کی پامالی کا شکار ہیں۔ غزہ کی موجودہ صورت حال کو انہوں نے انسانیت کا انہدام قرار دیا اور کہا کہ یہ علاقہ نہ صرف معصوم جانوں بلکہ بین الاقوامی انسانی قانون کے لیے بھی ایک قبرستان بن چکا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کے وحشیانہ حملوں کے نتیجے میں 58 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ اسپتالوں، اسکولوں، اقوام متحدہ کی عمارات، امدادی قافلوں اور پناہ گزین کیمپوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا گیا، جو اجتماعی سزا کے مترادف ہے اور بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
غزہ میں بھوک کی سطح تشویشناک حدوں کو چھو رہی ہے، جہاں اقوام متحدہ کے ادارۂ خوراک (WFP) کے مطابق ایک تہائی آبادی کئی کئی دن بغیر کھانے کے گزارنے پر مجبور ہے۔
اسحاق ڈار نے اس مسئلے کو اقوام متحدہ، سلامتی کونسل اور بین الاقوامی قانون کے لیے ایک کسوٹی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر عالمی برادری فلسطینی عوام کے بنیادی حقوق کی پاسداری میں ناکام رہی تو نہ صرف قانون کی ساکھ مجروح ہو گی بلکہ مجرمانہ استثنیٰ کو تقویت ملے گی۔
انہوں نے 1967 سے پہلے کی سرحدوں پر مشتمل، القدس الشریف کو دارالحکومت بنانے والی آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کی اور او آئی سی، عرب امن منصوبے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق دو ریاستی حل پر زور دیا۔
یہ بھی پڑھیں:پاکستان فلسطین میں فوری غیر مشروط جنگ بندی کا مطالبہ کرتا ہے، وزیر اعظم شہباز شریف
انہوں نے سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا کہ وہ غزہ اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں فوری، مستقل اور غیر مشروط جنگ بندی یقینی بنائے، اور ساتھ ہی اقوام متحدہ کی قرارداد 2735 پر مکمل عمل درآمد کرائے۔
انہوں نے کہا کہ انسانی امداد تک مکمل اور محفوظ رسائی کو یقینی بنایا جائے، اور امدادی کارکنوں، طبی عملے اور اقوام متحدہ کے اہلکاروں کا تحفظ کیا جائے۔ ساتھ ہی زندگی بچانے والی خوراک اور ادویات کی ترسیل کی بحالی اور قحط کی روک تھام کو ترجیح دی جائے۔
انہوں نے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے فلسطینی مہاجرین (UNRWA) کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے اس کی عالمی امداد بڑھانے کا مطالبہ کیا، اور مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں جبری بے دخلی، غیر قانونی آباد کاری اور زمین کے انضمام کو فوری طور پر روکے جانے پر زور دیا۔
انہوں نے غزہ کی تعمیر نو کے لیے او آئی سی اور عرب دنیا کے مشترکہ منصوبے کو اہم قرار دیا، جو فلسطینی عوام کی عزتِ نفس، بحالی اور ترقی کے لیے بنیادی فریم ورک مہیا کرتا ہے۔
انہوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ ایک ٹھوس اور وقتی سیاسی عمل کو دوبارہ بحال کرے، تاکہ ایک مستقل، منصفانہ اور پائیدار دو ریاستی حل ممکن ہو سکے۔
انہوں نے سعودی عرب اور فرانس کی جانب سے دو ریاستی حل پر 28 جولائی کو بلائی گئی بین الاقوامی کانفرنس کا خیرمقدم کیا، جو اس مسئلے کے حل کے لیے نئی توانائی اور عملی اقدامات کی امید ہے۔
یہ بھی پڑھیں:عالمی عدالت: پاکستان کی فلسطینیوں کے حق میں توانا آواز، اسرائیل کو کٹہرے میں لانے کی استدعا
اُنہوں نے ان ممالک سے بھی مطالبہ کیا جو تاحال فلسطینی ریاست کو تسلیم نہیں کرتے کہ وہ جلد از جلد اس تاریخی اقدام کو عملی جامہ پہنائیں۔
اسحاق ڈار نے شام کے مسئلے پر بات کرتے ہوئے شام کی سالمیت، وحدت اور خودمختاری پر زور دیا، اور اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ 1974 کے معاہدے کے تحت علیحدگی کے زون اور مقبوضہ جولان کی پہاڑیوں سے فوری انخلا کرے۔ لبنان کے حوالے سے اُنہوں نے اقوام متحدہ کی قرارداد 1701 پر مکمل عمل درآمد اور اسرائیلی جارحیت کے خاتمے پر زور دیا۔ یمن میں اقوام متحدہ اور علاقائی قوتوں خصوصاً سعودی عرب اور عمان کی ثالثی کوششوں کی حمایت کی۔
ایران پر اسرائیلی حملوں کو خطرناک نظیر قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایسے حملے خطے اور دنیا کے امن کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔
انہوں نے اس مسئلے کا حل سفارت کاری اور بات چیت کے ذریعے تلاش کرنے کی ضرورت پر زور دیا، اور کہا کہ تمام فریق اقوام متحدہ کے منشور کے مطابق اپنے فرائض ادا کریں۔
انہوں نے اپنے خطاب کا اختتام اس تاریخی جملے پر کیا ’اب وقت آ چکا ہے کہ فلسطینی عوام کو وہ سب کچھ دیا جائے جو ان سے دہائیوں سے چھینا گیا ہے: انصاف، آزادی، عزت اور ایک آزاد ریاست۔ یہی مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن اور استحکام کی راہ ہے۔