امریکا میں وفاقی ملازمین کو اب دفتر میں اپنے ساتھیوں کو مذہب کی دعوت دینے کی اجازت ہوگی، بشرطیکہ یہ عمل ہراساں کرنے کے دائرے میں نہ آئے۔
یہ بھی پڑھیں:’وہ عیسائی نہیں ہوسکتا‘ پوپ فرانسس نے ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں ایسا کیوں کہا؟
امریکی آفس آف پرسنل مینجمنٹ کے سربراہ اسکاٹ کوپر کی جانب سے جاری کی گئی نئے حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ مذہبی اظہار آئینی طور پر تحفظ یافتہ ہے، اور سپروائزرز سمیت تمام ملازمین کو مذہبی گفتگو کا مساوی حق حاصل ہے۔
حکم نامے میں کہا گیا کہ ملازمین اپنے عقائد کی درستگی پر دوسروں کو قائل کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں اور ساتھیوں کو دعا یا مذہبی سرگرمیوں میں شریک ہونے کی دعوت بھی دے سکتے ہیں۔
اس میں یہ وضاحت بھی کی گئی کہ کوئی ملازم انکار کرے تو اس پر دباؤ نہیں ڈالا جا سکتا۔
حکم نامے میں عوامی خدمات انجام دینے والے ملازمین کے لیے بھی رہنمائی دی گئی ہے، جیسے کہ نیشنل پارک رینجر یا ویٹرنز افیئرز ہسپتال کا ڈاکٹر، جو عوام یا مریض کے ساتھ دعا میں شامل ہو سکتے ہیں، بشرطیکہ یہ ذاتی حیثیت میں ہو۔
یہ بھی پڑھیں:پوپ کی رحلت: ٹرمپ نے قومی پرچم سرنگوں رکھنے کا حکم دے دیا
ٹرمپ انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ امریکہ میں مذہبی آزادی پر حملے ہو رہے ہیں، جن کے خلاف یہ اقدام ایک ردعمل ہے۔
ناقدین اسے چرچ اور ریاست کی علیحدگی کے اصول کے خلاف قرار دے رہے ہیں اور صرف عیسائیت کو فروغ دینے کی کوشش سمجھتے ہیں۔