مغربی تعلیم زوال پذیر کیوں ہے؟

جمعہ 1 اگست 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

 ریچل مارسڈن کی تحریر سے ماخوذ

مغربی دنیا کے تعلیمی نظام کو درپیش بحران اب محض خدشہ نہیں بلکہ ایک حقیقت بنتی جا رہی ہے۔ ریچل مارسڈن، جو کہ ایک معروف کالم نگار اور سیاسی تجزیہ کار ہیں، نے اپنی حالیہ تحریر میں کینیڈا اور فرانس جیسے ممالک میں تعلیمی انحطاط کی گہرائی سے نشاندہی کی ہے۔ ان کا موقف ہے کہ ’احساسات کو مقدم رکھنے‘ والی تعلیم نے علمی معیار کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔

انفرادی کارکردگی سے اجتماعی ہم آہنگی تک

مارسڈن کے مطابق تعلیمی ادارے اب انفرادی کارکردگی کے بجائے ’اجتماعی تعاون‘ کو ترجیح دے رہے ہیں۔

کامیاب طلبہ کی تصاویر ہٹا کر ان کی جگہ مختلف اقلیتوں کے پرچم اور سروے نتائج لگا دیے گئے ہیں جن میں بتایا گیا کہ طلبہ بیت الخلا تک جانے میں خود کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں۔

تعلیمی اداروں کا سابقہ نعرہ ’ہم برتری کے طالب ہیں‘ اب بے معنی دکھائی دیتا ہے۔

معیار کے بجائے نرمی کا غلبہ

برٹش کولمبیا (کینیڈا) جیسے علاقوں نے ریاضی، کیمیا، فزکس جیسے مضامین کے معیاری ٹیسٹ ختم کر دیے ہیں۔ ان کی جگہ صرف لٹریسی اور نمبریسی کے عمومی ٹیسٹ باقی رہ گئے ہیں۔

ٹیسٹ کے سوالات بچوں کو چیلنج کرنے کے بجائے ان کی سطح سے نیچے رکھے جا رہے ہیں۔

سوالات اتنے آسان ہیں کہ گویا 7 سال کے بچے سے پوچھے جا رہے ہوں، نہ کہ کسی یونیورسٹی میں داخلے کے امیدوار سے۔

گریڈنگ سسٹم میں تبدیلی

اب گریڈز کی جگہ مختلف الفاظ نے لے لی ہے مثلاً ’ابھرتا ہوا، ترقی کرتا ہوا، ماہر، یا آگے بڑھتا ہوا، وغیرہ۔

یہ تبدیلی کسی کی کمی کو اجاگر نہ کرنے کے لیے کی گئی ہے۔ لیکن اصل دنیا میں ایسی نرمی کی کوئی جگہ نہیں۔ مارچسن کے بقول، یہی طالبعلم بعد میں سوشل میڈیا پر ’احمق‘ کہلا کر شدید تنقید کا نشانہ بنتے ہیں۔

فرانسیسی تجربہ: ناکامی کے بعد واپسی

فرانس نے بھی 2019 میں ہائی اسکول کے لیے ریاضی کو نصاب سے نکال دیا، مگر نتائج اتنے خراب آئے کہ حکومت کو 2023 میں فیصلہ واپس لینا پڑا۔

حالیہ امتحانات میں ہدایات دی گئیں کہ املا اور گرامر کی غلطیوں پر مکمل نمبر نہ کاٹے جائیں بلکہ صرف سمجھ آنے پر توجہ دی جائے۔

تنقیدی سوچ کی کمی

مارسڈن طنزیہ انداز میں بتاتی ہیں کہ جب طلبہ فلسفے کے پرچے میں ’ preponderant ‘ جیسے عام الفاظ کے معانی بھی نہیں سمجھ پاتے، تو پھر ان کی علمی بنیادوں پر سنجیدہ سوالات اٹھتے ہیں۔

آخر یہ طلبہ گریجویشن کے بعد کس معیار پر کھڑے ہوں گے؟

’محفوظ جگہ‘ مگر کمزور علم

مارسڈن کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ مغرب میں تعلیم اب حقیقت سے زیادہ احساسات کے گرد گھومنے لگی ہے۔ سختی اور معیار کو ظلم سمجھا جانے لگا ہے۔ نتیجتاً ہم ایسے گریجویٹس دیکھ رہے ہیں جو دنیا کے چیلنجز سے نمٹنے کے بجائے صرف ’سیف اسپیس‘ کی تلاش میں رہتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

لاہور میں ہیوی وہیکلز ڈرائیونگ ٹریننگ اسکول کا قیام، وزیر اعلیٰ پنجاب کا محفوظ سفر یقینی بنانے کا وژن

ملک کے شمال مشرق میں زلزلے کے جھٹکے، لوگ گھروں سے باہر نکل آئے

ڈیرہ اسماعیل خان: داناسر میں المناک ٹریفک حادثہ، ایک ہی خاندان کے 11 افراد جاں بحق

پاکستان اور بھارت کے مابین کرکٹ کے بڑے فائنلز، کس کا پلڑا بھاری رہا؟

پی ٹی سی ایل گروپ اور مرکنٹائل نے پاکستان میں آئی فون 17 کی لانچ کا اعلان کردیا

ویڈیو

’میڈن اِن پاکستان‘: 100 پاکستانی کمپنیوں نے بنگلہ دیشی مارکیٹ میں قدم جمالیے

پولیو سے متاثرہ شہاب الدین کی تیار کردہ الیکٹرک شٹلز چینی سواریوں سے 3 گنا سستی

وائٹ ہاؤس: وزیراعظم اور امریکی صدر کے درمیان اہم ملاقات ختم، فیلڈ مارشل عاصم منیر بھی شریک تھے

کالم / تجزیہ

بگرام کا ٹرکٖ

مریم نواز یا علی امین گنڈا پور

پاکستان کی بڑی آبادی کو چھوٹی سوچ کے ساتھ ترقی نہیں دی جا سکتی