بلوچستان میں لوگ اب دیگر درخت لگانے کے بجائے زیتون (اولیو) پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں، کیوں کہ اس پر اخراجات کم ہیں اور منافع زیادہ حاصل ہوتا ہے۔
کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ زیتون کی کاشت سے نہ صرف زیر زمین پانی محفوظ رہے گا بلکہ ماحول دوست زیتون کے درخت سے بارش کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔
ماہرین کا بتانا ہے کہ جنگلوں اور پہاڑوں پر موجود جنگلی زیتون کے درختوں پر پیوندکاری کرکے بھی زیتون کی کاشت کو بڑھایا جاسکتا ہے۔ اگر اس درخت کو پانی کی کمی کا شکار کسی بنجر زمین میں بھی اگایا جائے تو چند ماہ بعد اس درخت کو پانی کی ضرورت نہیں پڑتی۔
زیتون کے کاشتکار اس تیل کے ساتھ اچار اور چائے کی پتی بھی تیار کرتے ہیں جس کی عالمی منڈی میں طلب بہت زیادہ ہے۔ حکومت اگر اس کی برآمد میں نرمی اور آسانی پیدا کرے تو بلوچستان کے کاشتکاروں کی زندگی بدل سکتی ہے۔
ماہرین کا بتانا ہے کہ زیتون کی شجرکاری سے پاکستان کو درپیش ماحولیاتی تبدیلی کے مسئلے کو کم کیا جاسکتا ہے اور 2 بلین کے قریب خوردنی تیل کے بجٹ کو کم کرنا بھی ممکن ہے، جبکہ تیل نکالنے کی فیکٹریاں قائم کرکے گھی کی ضروریات بھی پوری کی جا سکتی ہیں۔ مزید جانیے عامر باجوئی کی اس رپورٹ میں۔