سابق وزیر اعظم عمران خان گرفتار ہو گئے۔ بڑی خبر ہے لیکن اس نوع کی بڑی خبریں ہم پہلے بھی بہت سن چکے ہیں۔ بھٹو سے لے کر عمران خان سب ہی گرفتار ہوئے۔ کسی کے مقدر میں پھانسی گھاٹ رہا، کوئی ملک بدر ہوا، کوئی معزول ہوا، کسی کو اداروں نے حفاظتی تحویل میں لیا، کوئی عدم کو لوٹ گیا۔ ہر کہانی مخلتف ہے، ہر ایک کا انجام مختلف ہے، ہر ایک پر الزام مختلف ہے۔
آج عمران خان کی گرفتاری کا نواز شریف کی گرفتاری سے موازنہ مقصود ہے۔ نواز شریف کا جرم کوئی نہیں تھا۔ کرپشن کی ایک پائی ثابت نہ ہوئی۔ کبھی اقامے کا ہنگامہ کھڑا کیا گیا، کبھی پاناما کو وجہ بنایا گیا۔ آخر میں بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کے ’جرم‘ میں گرفتار کر لیا گیا۔ صرف گرفتار نہیں کیا گیا، تین دفعہ کے وزیر اعظم کی توہین بھی کی گئی۔ انہیں گرفتاری میں زہر دینے کی کوشش بھی کی گئی، ڈاکٹروں سے ملنے سے منع کر دیا گیا، ادویات کی فراہمی میں رکاوٹٰیں ڈالی گئیں۔
میڈیا پرجغادری صحافیوں نے نامعلوم ’جرم‘ پر کئی سو گھنٹوں کے پروگرام کیے۔ نواز شریف کو اذیت دینے کے لیے گرفتاری میں ان کی صاحبزادی مریم نواز کو ان کے سامنے گرفتار کیا گیا۔ ہر جگہ ’چور، چور‘ کا نعرہ لگایا گیا۔ ثبوت ملا نہیں مگر الزام( من گھڑت کہانی)، ایسے تواتر سے لگا کہ لوگ الزامات کو سچ سمجھنے لگے۔
نواز شریف کے جرائم میں بڑا جرم سی پیک قرار پایا۔ ملک کی خارجہ پالیسی کو درست سمت پر رکھنے کی سزا دی گئی۔ امریکی تسلط سے آزادی کی خواہش پر نہ صرف وزارت عظمیٰ سے محروم کیا گیا بلکہ جیل بھی مقدر بنی۔ نواز شریف نے اس وقت ووٹ کو عزت دینے کا نعرہ لگایا۔ جنرل باجوہ کا نام گوجرانوالہ میں ضرور لیا مگر آئین کی حرمت کی بات کی، پارلیمان کی بالا دستی کی بات کی اور ادارے کے وقار کو ملحوظ خاطر رکھا۔ افراد کی بات کی، چند کرداروں کے نام لیے۔ جی ٹی روڈ سے لاہور کا سفر کیا۔ لوگوں کو ایک نظریے پر اکھٹا کیا۔ انہیں آگہی اور جمہوری شعور عطا کیا۔ گزشتہ وزرائے اعظموں کی کہانی سنائی ۔ ستر سال تک کوئی وزیراعظم کیوں اپنی مدت پوری نہیں کر سکا، اس کے بارے میں بتایا۔
گوجرانوالہ کے جلسے میں ادارے کے چند افراد کے بارے میں جو کچھ کہا، اس سے تجاوز نہیں کیا۔ ہمیشہ سرحد پر کھڑے جوان کی حرمت کو بیان کیا۔ پاکستان کو کبھی برا بھلا نہیں کہا۔ امریکی سفیروں کی کبھی مدد قبول نہیں کی۔ اپنی گرفتاری کے خوف سے خارجہ پالسی کی سطح پر ملک کو برباد کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ کبھی پاکستانی پاسپورٹ کو آگ لگانے کی کارکنوں سے فرمائش نہیں کی۔ کبھی ملک کی تین ٹکڑوں میں تقسیم کی بات نہیں کی۔ سوشل میڈیا کے ٹرولز کو وطن کو گالیاں دینے پر نہیں اکسایا۔ انتہائی دشوار حالات میں بھی سبز پرچم کو ہاتھ سے نہیں چھوڑا، نفرت کو شعار نہیں بنایا، انتشار کی سیاست نہیں کی، اداروں پر کیچڑ نہیں اچھالا۔
عمران خان کی گرفتاری اس گرفتاری سے بہت مختلف ہے۔ عمران خان پر بہت سے الزامات ہیں جن میں سے بہت سے جرم ثابت ہوئے۔ تحریک عدم اعتماد والے دن آئین شکنی عمران خان کا سب سے بڑا جرم تھا، امریکی سائفر کا جھوٹ بول کر خارجہ تعلقات کی تباہی بہت بڑا جرم تھا، اداروں کے خلاف ہذیان بہت بڑا جرم تھا، دوست ملک کی طرف سے دی گئی خانہ کعبہ کی منقش تصویر کو فروخت کرنا بہت بڑا جرم تھا، فوج کے اندر اختلافات کو ہوا دینا بہت بڑا جرم تھا، اپنے کارکنوں کو تشدد پر اکسانا بہت بڑا جرم تھا لیکن آپ کو سن کر حیرت ہو گی کہ عمران خان کو ان سب جرائم کی سزا نہیں ملی۔
انہیں القادریہ ٹرسٹ کیس میں گرفتار کیا گیا۔ یہ کیس کرپشن کا کیس ہے۔ اس میں کرپشن کروڑوں کی نہیں اربوں کی ہے۔ برطانیہ کی حکومت نے پاکستان کو بلیک منی واپس کی۔ اورعمران خان نے اس پیسے کو کابینہ کی منظوری کے بغیر ایک پراپرٹی ٹائیکون کی گود میں ڈال دیا۔ اس کے بدلے میں القادریہ ٹرسٹ کی زمین حاصل کی۔ معاملہ اربوں کا ہے۔ کرپشن سب کی نظروں کے سامنے کی گئی۔ ثبوت بھی تلاش کرنے کی ضرورت نہیں۔ عمران خان کے اپنے بیانات ہی کافی ہیں۔ اس کرپشن پر پردہ ڈالنے کے لیے بھی اسلامی ٹچ دیا گیا۔ اور روحانیت جیسے مقدس موضوع کو پامال کیا گیا۔
عمران خان جب وزارت عظمی سے نکلے تو نہ انہوں نے اداروں کو آئین کا درس دیا نہ پارلیمان کی عظمت کا سبق دیا، نہ ووٹ کو عزت دینے کی بات کی، نہ عوام کے نمائندوں کی حرمت کا سبق یاد دلایا۔ انہوں نے صرف اپنی ذات کی بات کی، اداروں کو مسلسل آئین شکنی پر اکسایا ۔ بضد رہے کہ جس دھاندلی کے ذریعے مجھے دوہزار اٹھارہ میں وزیر اعظم بنایا گیا اب اسی طرح کی دھونس استعمال کرتے ہوئے مجھے دوبارہ وزیر اعظم بنایا جائے۔ عمران خان نے کبھی دوسرے وزرائے اعظم کی معزولی کی مثال نہیں دی کیونکہ ان کی ساری سیاست دوسروں کو گالی دینے پر منحصر رہی۔ اس کام سے کبھی انہیں فرصت ہی نہیں ملی کہ کسی میثاق جموریت کے متعلق بات کر سکیں، مکالمے اور مذاکرات کا قصہ چھیڑ سکیں۔
مختصر بات کروں تو نواز شریف کی گرفتاری اور عمران خان گرفتاری میں بنیادی فرق یہ ہے کہ نواز شریف سی پیک شروع کرنا چاہتے تھے اور عمران خان اسے تباہ کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ نواز شریف آئین کی بات کرتے تھے، عمران خان آئین شکنی کا درس دیتے تھے۔ نواز شریف ووٹ کی عزت کی بات کرتے تھے تو عمران خان اسلامی ٹچ دے کر نوٹ کی عزت کی بات کرتے تھے۔
سنا ہے عمران خان نے ہر موقع کے لیے گرفتاری سے پہلے ہی وڈیوز ریکارڈ کر رکھی ہیں۔ کوئی وڈیو فوج کے خلاف ہے، کوئی نواز شریف اور زرداری کے خلاف۔ عمران خان عقل مند ہوتے تو صرف جنرل فیض حمید کے نام پر وڈیو ریکارڈ کرواتے اور اس میں بھی بس! یہی ایک جملہ کہتے کہ ’مرشد مروا دیا ہے‘۔