ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل کو غزہ پر مکمل قبضہ کی کھلی چھوٹ دیدی

بدھ 6 اگست 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر اسرائیل سے متعلق متنازع بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر اسرائیل غزہ پر مکمل قبضہ کرنا چاہے تو یہ اُس کا اپنا فیصلہ ہے، امریکا اس میں رکاوٹ نہیں ڈالے گا۔

منگل کے روز صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے جب ٹرمپ سے اسرائیلی وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو کے مبینہ منصوبے — پورے غزہ پر قبضے — کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا:

’میری توجہ اس وقت صرف اس بات پر ہے کہ غزہ کے لوگوں کو کھانا فراہم کیا جائے۔ باقی معاملات کا فیصلہ اسرائیل کو کرنا ہے۔‘

یہ بھی پڑھیں ’غزہ جنگ بند کروائیں‘، اسرائیل کے 600 سے زائد سابق سیکیورٹی عہدیداروں کا امریکی صدر ٹرمپ کو خط

یاد رہے کہ امریکا ہر سال اسرائیل کو اربوں ڈالر کی فوجی امداد دیتا ہے، اور اکتوبر 2023 میں اسرائیل کی غزہ پر جنگ کے آغاز کے بعد سے یہ امداد مزید بڑھ چکی ہے۔

غزہ میں انسانیت سوز صورتِ حال

اسرائیلی فوج کی جانب سے فلسطینیوں کو غزہ کے چھوٹے چھوٹے علاقوں میں محدود کر دیا گیا ہے، جہاں 86 فیصد سے زائد علاقہ اب مکمل طور پر عسکری زون بن چکا ہے۔
غزہ میں خوراک کی شدید قلت، روزانہ بمباری اور اسرائیلی ناکہ بندی کے باعث انسانی جانوں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔

یہ بھی پڑھیے ہم چاہتے ہیں کہ اسرائیل غزہ کے لوگوں کو خوراک فراہم کرے، ڈونلڈ ٹرمپ

اقوام متحدہ کے اعلیٰ عہدیدار میروسلاف جینچا نے خبردار کیا ہے کہ اگر اسرائیل نے غزہ پر مکمل قبضہ کیا تو اس کے ’تباہ کن نتائج‘ برآمد ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا:

’بین الاقوامی قانون کے مطابق غزہ مستقبل کی آزاد فلسطینی ریاست کا ایک لازمی حصہ ہے۔‘

اسرائیل کے عزائم، اور فلسطینیوں کے خدشات

اسرائیل نے 2005 میں غزہ سے اپنی فوج اور آبادکار واپس بُلا لیے تھے، لیکن قانونی ماہرین کے مطابق غزہ پر قبضہ تکنیکی طور پر برقرار رہا، کیونکہ اسرائیل اب بھی غزہ کی فضائی حدود، سمندری حدود اور بارڈر کنٹرول پر قابض ہے۔

2023 کی جنگ کے بعد اسرائیل کی دائیں بازو کی حکومت نے غزہ میں دوبارہ بستیوں کے قیام اور فوجی موجودگی کا مطالبہ کیا۔
نیتن یاہو نے کئی مواقع پر فلسطینیوں کو مکمل طور پر غزہ سے بےدخل کرنے کا عندیہ دیا — جو کہ نسل کشی (ethnic cleansing) کے زمرے میں آتا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی رواں سال فروری میں اس تصور کی حمایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ:

’غزہ کو خالی کر کے اسے مشرق وسطیٰ کی ریویرہ میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔‘

انسانی امداد میں رکاوٹیں اور امریکا کا کردار

مارچ 2025 سے اسرائیل نے غزہ میں امدادی سامان کا داخلہ تقریباً مکمل طور پر بند کر دیا ہے۔ امریکا کی مالی معاونت سے چلنے والے GHFمراکز ہی واحد ذریعہ ہیں جہاں سے فلسطینی خوراک حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں — اس دوران کئی افراد اسرائیلی فوج کے ہاتھوں ہلاک ہو چکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے فلسطین باقی نہ رہا تو تسلیم کیا ہوگا؟ آسٹریلوی وزیر خارجہ کا انتباہ

اگرچہ اقوامِ متحدہ نے بارہا مطالبہ کیا کہ اسے امداد کی تقسیم کی اجازت دی جائے، امریکا بدستور GHF کو امداد فراہم کر رہا ہے۔

منگل کو ایک مرتبہ پھر ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ امریکا نے غزہ کے لیے 60 ملین ڈالر کی امداد فراہم کی ہے، جس میں سے 30 ملین ڈالر GHF کو دیے گئے۔
انہوں نے کہا:

’ہم نے خوراک کے لیے بہت بڑی رقم دی ہے۔ اسرائیل اور عرب ریاستیں اس خوراک کی ترسیل میں ہماری مدد کریں گی۔‘

غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے نتائج

اب تک اسرائیلی کارروائیوں میں 61,000 سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، اور غزہ کا بیشتر علاقہ مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔
بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں اور اقوام متحدہ کے ماہرین نے ان حملوں کو نسل کشی قرار دیا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

لاہور میں ہیوی وہیکلز ڈرائیونگ ٹریننگ اسکول کا قیام، وزیر اعلیٰ پنجاب کا محفوظ سفر یقینی بنانے کا وژن

ملک کے شمال مشرق میں زلزلے کے جھٹکے، لوگ گھروں سے باہر نکل آئے

ڈیرہ اسماعیل خان: داناسر میں المناک ٹریفک حادثہ، ایک ہی خاندان کے 11 افراد جاں بحق

پاکستان اور بھارت کے مابین کرکٹ کے بڑے فائنلز، کس کا پلڑا بھاری رہا؟

پی ٹی سی ایل گروپ اور مرکنٹائل نے پاکستان میں آئی فون 17 کی لانچ کا اعلان کردیا

ویڈیو

’میڈن اِن پاکستان‘: 100 پاکستانی کمپنیوں نے بنگلہ دیشی مارکیٹ میں قدم جمالیے

پولیو سے متاثرہ شہاب الدین کی تیار کردہ الیکٹرک شٹلز چینی سواریوں سے 3 گنا سستی

وائٹ ہاؤس: وزیراعظم اور امریکی صدر کے درمیان اہم ملاقات ختم، فیلڈ مارشل عاصم منیر بھی شریک تھے

کالم / تجزیہ

بگرام کا ٹرکٖ

مریم نواز یا علی امین گنڈا پور

پاکستان کی بڑی آبادی کو چھوٹی سوچ کے ساتھ ترقی نہیں دی جا سکتی