انسانی حقوق کے مایہ ناز برطانوی وکیل عاصم قریشی نے اپنی لندن یونیورسٹی کے اسکول آف اورینٹل اینڈ افریکن اسٹڈیز کی سند احتجاجاً نذرآتش کردی، ان کا یہ اقدام اس وقت سامنے آیا جب یونیورسٹی نے فلسطین سوسائٹی کی صدر اور سرگرم طالبہ حیا آدم کو بے دخلی کا نوٹس جاری کیا۔
ڈاکٹرعاصم قریشی بین الاقوامی سطح پر انسدادِ دہشت گردی پالیسیوں کے اثرات کی تحقیقات اور گوانتاناموبے سمیت دہشت گردی کے مقدمات میں قانونی ٹیموں کو مشاورت فراہم کرنے کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ وہ اس ادارے سے وابستہ نہیں رہ سکتے جس نے ایک طالبہ کو محض ’فلسطینی عوام کی نمائندگی اور ان کے حق میں کھڑے ہونے‘ پر نکال دیا۔
پس منظر
واضح رہے کہ فلسطینی نژاد سوئس طالبہ 21 سالہ حیا آدم ایس او اے ایس کی فلسطین سوسائٹی کی صدر ہیں اور پچھلے 15 ماہ سے یونیورسٹی کیمپس میں جاری اس طلبا دھرنے کی نمایاں رہنماؤں میں شامل رہی ہیں، جو ادارے کی مبینہ اسرائیلی جنگِ غزہ میں مبینہ شراکت کے خلاف احتجاج کر رہا ہے۔
یونیورسٹی کے ڈسپلنری پینل نے بدھ کے روز فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ حیا آدم نے 16 جنوری کو انسٹاگرام پر پوسٹ ہونے والی ایک ویڈیو میں طلبا یونین کی شریک صدر کے بارے میں سخت ریمارکس دیے، جنہیں پینل نے ہراسانی قرار دیا، ویڈیو میں حیا آدم نے اس عہدیدار پر ’ادارہ جاتی جبر‘ کو فروغ دینے کا الزام عائد کرتے ہوئے انہیں ’کیریئر پرست‘ کہا۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیل مخالف احتجاج پر امریکی یونیورسٹی میں ریپبلکن رہنما کی بیٹی معطل، 104 افراد گرفتار
دلچسپ بات یہ ہے کہ مذکورہ یونین عہدیدار نے خود ایک ریکارڈ شدہ گفتگو میں اس پوسٹ کو ہراسانی قرار دینے سے انکار کیا، یہ دوسرا واقعہ ہے جب ایس او اے ایس نے کسی فلسطین کے حامی طالب علم کو بیدخل کیا ہے، اس سے قبل دسمبر 2024 میں طالب علم ایبل ہاروی کلارک کو بھی نکال دیا گیا تھا۔
ڈاکٹرعاصم قریشی کی جانب سے انسٹاگرام پر اپنی ایس او اے ایس کی سند جلانے کی ویڈیو وائرل ہونے پر یونیورسٹی نے اپنے بیان میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ ہم نے کبھی بھی محض فلسطین کے حق میں خیالات یا مظاہروں پر کسی طالب علم کو نہ نکالا ہے اور نہ ہی سزا دی ہے۔
ایس او اے ایس کا مؤقف
’پچھلے 19 ماہ میں ہمارے کیمپس میں سینکڑوں پرامن تقریبات، مظاہرے اور اجتماعات ہوئے جو آزادیٔ اظہار کی ثقافت کی عکاسی کرتے ہیں۔ چند کیسز میں، جہاں سنگین بدعنوانی جیسے تخریب کاری، امتحانات میں خلل یا عملے کو دھمکیاں شامل تھیں، ہم نے مناسب کارروائی کی۔‘
یونیورسٹی نے اسرائیل میں 7 اکتوبر کے جانی نقصان اورغزہ میں جاری تباہی پرافسوس کا اظہار کرتے ہوئے فوری جنگ بندی کا مطالبہ بھی دہرایا۔
حیا آدم کی والدہ کا تبصرہ
انسٹا گرام پرہی یونیورسٹی کی اس وضاحتی پوسٹ کے نیچے تبصرہ کرتے ہوئے حیا آدم کی والدہ نے اس فیصلے کو سخت الفاظ میں مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ صرف ان کی بیٹی نہیں، بلکہ ہر باضمیر شخص کے لیے ایک توہین ہے۔
’میں اور حیا آپ کو مکمل اجازت دیتے ہیں کہ آپ اس کیس کی اصل سچائی بیان کریں — کس طرح آپ نے ڈسپلنری سماعتوں کے دوران اسے مجرم ثابت کرنے، خوفزدہ کرنے اور اس کے منہ میں الفاظ ڈالنے کی کوشش کی، صرف اسے نکالنے اور اپنی طاقت کے عہدوں کو بچانے کے لیے۔‘
مزید پڑھیں: امریکی و اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ سے کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں؟
انہوں نے ایس اواےایس انتظامیہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ انہیں شرم آنی چاہیے۔ ’شرم آنی چاہیے ایس اواےایس کو اس بیان پراوراس صفحے پر، جوایس اواے ایس برطانیہ کی سب سے پرانی فلسطینی سوسائٹی کو فالو تک نہیں کرتا، یہ آپ کے مؤقف کے بارے میں بہت کچھ بتاتا ہے۔‘