ایران نے خبردار کیا ہے کہ وہ آذربائیجان اورآرمینیا کے درمیان امریکا کی ثالثی میں طے پانے والے امن معاہدے کے تحت مجوزہ راہداری کو روک دے گا، جسے خطے کے دیگر ممالک نے پائیدار امن کے لیے مفید قرار دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:آذربائیجان اور آرمینیا نے امن معاہدے پر دستخط کر دیے، ٹرمپ نوبیل امن انعام کے لیے نامزد
ایران کے سپریم لیڈر کے اعلیٰ مشیر، علی اکبر ولایتی نے ہفتہ کے روز کہا کہ تہران اس منصوبے کو روس کے ساتھ یا تنہا خود روک دے گا، روس کے ساتھ ایران کی تذویراتی شراکت داری ہے، اور دونوں ممالک آرمینیا کے اتحادی ہیں۔
🚨BREAKING: Iran will oppose any corridor linking Azerbaijan to Nakhchivan through Armenia saying it could become a graveyard.
Khamenei aide Velayati pic.twitter.com/lXBTkQWEg2
— The Daily CPEC (@TheDailyCPEC) August 9, 2025
علی اکبر ولایتی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ سمجھتے ہیں کہ قفقاز ایک ایسا ریئل اسٹیٹ ہے جسے وہ 99 سال کے لیے لیز پر لے سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امن معاہدے میں شامل یہ راہداری ٹرمپ کے کرائے کے فوجیوں کے لیے دروازہ نہیں بلکہ ان کی قبر بنے گی اور اسے ’سیاسی غداری‘ قرار دیا جو آرمینیا کی علاقائی سالمیت کو نقصان پہنچانے کے لیے کی گئی ہے۔
مزید پڑھیں:ترکیہ اور آذربائیجان ہمیشہ پاکستان کا ساتھ کیوں دیتے ہیں؟
گزشتہ روز وائٹ ہاؤس میں دستخط ہونے والے معاہدے کے تحت امریکا کو ایک خصوصی ترقیاتی حق حاصل ہوگا جس کے ذریعے آذربائیجان کو ترکی سے ملحق آذربائیجانی علاقہ نخچیوان سے جوڑا جائے گا۔ یہ راہداری ایران کی سرحد کے قریب سے گزرے گی اور اسے ٹرمپ روٹ برائے عالمی امن و خوشحالی کا نام دیا گیا ہے، جو آرمینیا کے قوانین کے تحت کام کرے گی۔
علی اکبر ولایتی کے مطابق یہ منصوبہ نیٹو کو اس پوزیشن میں لے آئے گا کہ وہ ایران اور روس کے درمیان سانپ کی طرح بیٹھ سکے۔
مزید پڑھیں:پاکستان سے ایران اور خلیجی ممالک کے لیے فیری سروس کے آغاز کی راہ ہموار، لائسنس کی منظوری دیدی گئی
دوسری جانب آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان امن معاہدے کا خیر مقدم کرتے ہوئے ایرانی وزارتِ خارجہ نے ایک بیان میں سرحدوں کے قریب کسی بھی غیر ملکی مداخلت کے ممکنہ منفی اثرات پر تشویش کا اظہار کیا ہے، وزارت نے کہا کہ ایران کی سرحد کے قریب کوئی بھی منصوبہ قومی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے احترام کے ساتھ اورغیرملکی مداخلت کے بغیر ہونا چاہیے۔
روس کی وزارتِ خارجہ نے بھی محتاط انداز میں اس معاہدے کا خیر مقدم کیا لیکن غیر علاقائی طاقتوں کی مداخلت کے خلاف خبردار کیا، بیان میں کہا گیا کہ پائیدار حل خطے کے ممالک کو خود تیار کرنے چاہییں، تاکہ مشرقِ وسطیٰ میں مغربی قیادت میں تنازعات کے حل کی ’بدقسمت مثال‘ نہ دہرائی جائے۔
مزید پڑھیں:آذربائیجان کا قبل از وقت صدارتی انتخابات کرانے کا فیصلہ، وجہ کیا ہے؟
ادھر ترکی نے بھی امید ظاہر کی ہے کہ مجوزہ راہداری کے ذریعے جنوبی قفقاز سے توانائی اور دیگر وسائل کی برآمدات میں اضافہ ہوگا، نیٹو کا رکن ہوتے ہوئے ترکی بنیادی طور پر آذربائیجان کا مضبوط حامی رہا ہے، تاہم اس نے وعدہ کیا ہے کہ باضابطہ امن معاہدے کے بعد آرمینیا سے تعلقات بحال کرے گا۔
ترک صدر رجب طیب اردوان نے اپنے آذربائیجانی ہم منصب الہام علیف سے معاہدے پر گفتگو کی اور خطے میں پائیدار امن کے لیے انقرہ کی حمایت کی پیشکش کی، ترک وزیرِ خارجہ حکان فیدان نے مصر کے دورے کے دوران کہا کہ یہ راہداری یورپ کو ترکی کے راستے ایشیا کی گہرائیوں سے جوڑ سکتی ہے۔
مزید پڑھیں:اسرائیل نے فلسطین کو تسلیم کرنے کے خلاف آرمینیائی سفیر کو طلب کر لیا
آرمینیا اورآذربائیجان کے درمیان 1980 کی دہائی کے آخر سے متعدد جنگیں ہو چکی ہیں، جب نگورنو-کاراباخ، جس میں اس وقت اکثریتی نسلی آرمینیائی آبادی تھی، آذربائیجان سے علیحدہ ہو کر آرمینیا کی مدد سے ایک خود مختار علاقے کے طور پر قائم ہوا۔ گزشتہ سال آرمینیا نے کئی دیہات آذربائیجان کو واپس کر دیے، جسے باکو نے ’تاریخی اور طویل انتظار کے بعد کا واقعہ‘ قرار دیا۔