غریب ہک زندہ لاش اے

اتوار 10 اگست 2025
author image

وقار حیدر

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

یقین کریں کامیابی ایسے ہی قدم نہیں چومتی، اور پھر ہمارے قدم جو غربت کی دلدل میں دھنسے ہیں انکو چومنا تو درکنار انکو دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتی۔ لیکن کچھ قدم اس کیچڑسے باہر نکل ہی آتے ہیں لیکن انکو اس کیلئے بڑی قیمت چکانا پڑتی ہے۔

کارل مارکس نے کہا تھا کہ انقلاب کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ مڈل کلاس طبقہ بنتا ہے، ان کی نظریں آسمان اور پیر کیچڑ میں ہوتے ہیں۔

زندگی کی 37 خزائیں دیکھنے کے بعد آج جب میں ظلمت شب میں بستر پر خود کو گراتا ہوں تو بہت کچھ خیالات میں آتا ہے۔ کمرے میں ایکطرفہ میز پر پڑے برقی دیپک کی ہلکی دھیمی روشنی میں رات کے کئی پہر میں اپنے بستر پر گزارتا ہوں، انتظار کرتا ہوں ، سوچتا ہوں، کبھی تکیہ کے سہارے ٹیک لگا کر نیم انکھوں سے موبائل کو تکتا رہتا ہوں تو کبھی اُٹھ کر بیٹھ جاتا ہوں۔ گھر والوں کو کال کرنے کا ان کی جانب سے وقت مقرر ہے اور اسی وقت میں کال کی جاسکتی ہے کیونکہ ہمارے وقت نہیں ملتے۔ دوست احباب کی کال 90 فیصد صرف کام سے ہی آتی ہے۔ سوشل میڈیا کے احباب کو لگتا ہے میں ایک مصروف شخص ہوں، کل ملا کر حساب کتاب کرکے میں ایک بیرون ملک قیام پذیر شخص ہوں جو اپنے دوست احباب، رشتہ داروں، تعلق داروں اور خاندان سے دور ہے اور ۔۔۔۔۔ وجہ ہے کامیاب زندگی!

میری عمر کے ادھیڑ عمرجوان اور خاص طور پر نچلے درمیانی طبقے سے تعلق رکھنے والے کروڑوں نوجوان شاید میری جیسی کامیاب زندگی کی تمنا کرتے ہوں گے۔ لیکن شاید آج بھی غربت نے ان کے پاوں جکڑ رکھے ہوں گے اور وہ چاہ کر بھی گھر والوں کو روز مرہ کی سہولیات باہم پہنچانے سے قاصر ہوں گے۔ شاید آپ کو اندازا نہیں ہے کہ غربت کس کمبختی کا نام ہے۔ زندگی میں غربت کی وجہ سے جن طَعْن و تَشْنِیع کا سامنا کرنا پڑا ان میں سے کچھ آج تک نہیں بھولے اور کچھ واقعات ذہن پر نقش ہو کر رہ جاتے ہیں۔

نہ چاہتے ہوئے بھی غربت کے حوالے سے سوشل میڈیا پر موجود حقیقی مواد کا سہارا لینا پڑ رہا ہے۔ چند دن پہلے سوشل میڈیا پر سرگودھا کے 24 سالہ جواں سال طیب کی تصویر اور ساتھ میں لکھا وہ حساب کتاب گردش کر رہا تھا جو اس نوجوان نے اپنے قریبی لوگوں سے بطور قرض لے تو لیا لیکن شاید واپسی ممکن نہیں رہی تو معاشرہ میں عزت نفس بچانے کا واحد راستہ اپنایا اور وہ تھی موت، ایک جوان موت جو سوشل میڈیا کے لوگ تو بھول جائیں گے لیکن اس کے خاندان، خاص طور پر اس کو پالنے والی ماں اور جوان کرنے والا باپ اب کبھی نہ بھول پائے گا۔

امام جعفر صادق علیہ السلام کا فرمان ہے کہ جب تمہارا کوئی رشتہ دار محتاج ہو تو پھر باہر صدقہ نہ دو۔ دوسری طرف میں غربت کے بھوک و افلاس کے ہاتھوں ایک ایک روٹی ٹکڑے کے لیے غزہ میں خون میں لت پت لاشوں کو دیکھتا ہوں جن پر بمباری کی جاتی ہے۔ دل پسیج کر رہ جاتا ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی ان حالات میں رووں یا پھر چپ چاپ تماشا دیکھوں؟ تھوڑا بہت لکھنا جانتا ہوں تو زبان کے علاوہ لفظوں سے بھی احتجاج کر لیتا ہوں لیکن یقین کریں میں اور میرے جیسے کئی جوان عملی طور پر کوئی بھی اقدام اُٹھانے سے قاصر ہیں۔ موت کا تماشا تو روز ہی ہوتا ہے میرے آگے لیکن مجھے اب ندامت کے علاوہ احساس گناہ ہونے لگ گیا کہ بروز محشر ذات حق نے مجھ سے غزہ کے مظلوم مسلمانوں بارے سوال کرلیا تو میرے پاس کوئی جواب بن نہ پائے گا۔

ادھر وطن عزیز کے حالات ایسے ہیں کہ وہ لوگ جو پیسوں میں کھیلتے تھے اب خود ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہو چکے ہیں سفید پوش تو خاموشی سے موت کا انتظار کررہے ہیں کیونکہ اشرافیہ سنُ ہو چکی ہے، یقیناً سب ہی ایسے نہیں، بہت سے صاحبِ ثروت غربا کی مدد کرتے ہیں۔

اب بات کرتے ہیں دوسری ویڈیوکی، حقیقت کے قریب تر ویڈیو جسے سوشل میڈیا پر بطور مذاق پوسٹ کیا جاتا ہے جس میں دو اشخاص کا مکالمہ ہے جو شاید ہی 15 سیکنڈز سے زیادہ ہو:
سوال: سائیں غریب کیا ہے؟
جواب: غریب ،،،،، دا پترُ ہے۔ ہک مردہ لاش اے۔

میں اپنے قارئین سے ہزار بار معذرت خواہ ہوں ایسے الفاظ لکھنے کے لیے جو کسی طور پر لکھت میں نہیں آنے چاہیں ۔ لیکن میں دست بستہ، سر ندامت جھکائے اتنا کہنا چاہوں گا کہ ہمارے معاشرے میں اس سے بہتر، درست اور حقیقت پر مبنی غربت کی کوئی اور تعریف نہیں ہو سکتی۔ بہت سے افراد تنقید کریں گے شاید مجھے لعن طعن بھی کریں لیکن معذرت کیساتھ اور جناب منٹو سے لفظ مستعار لے کر ’اگر میری تحریریں فحش ہیں، تو معاشرہ فاحشہ ہے، میں معاشرے کا آئینہ ہوں۔ اگر چہرہ بدصورت ہے، تو آئینے کو برا نہ کہو۔‘

آخر میں ایک التجا ہے کہ اپنے ارد گرد سفید پوش اور غریب لوگوں پر نظر رکھیں اور کوشش کرکے ان کا ساتھ دیں کیونکہ وقت اور حالات بدلتے ہوئے دیر نہیں لگتی اور کیا پتا وقت کی چکی میں کب کون پسنا شروع ہو جائے؟

لکھاری جب کچھ لکھتا ہے یا کسی تحریر میں کوئی منظر کشی کرتا ہے تو خود کو بیچ چوراہے میں کھڑا کرکے اردگرد سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ کر لکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ چونکہ ہمارا معاشرہ استدلال سے زیادہ ڈرامائی انداز اور ذاتی زندگیوں میں دلچسپی رکھتا ہے تو تحریر کا انداز بھی ویسا ہی ہو جاتا ہے۔ مقصد صرف بات کو کسی نہ کسی طرح پہنچانا ہوتا ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

قازقستان کا ‘ابراہیم معاہدوں’ میں شمولیت اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات مضبوط بنانے کا عندیہ

گیس کی عدم موجودگی میں گیزر بند، پانی کیسے کریں گرم؟ عوام کی رائے

پیپلز پارٹی نے 27ویں آئینی ترمیم کی بیشتر تجاویز مسترد کردیں

’ایئر کراچی‘ کا ہدف کتنے سو جہاز ہیں اور مسافروں کو کیا سہولیات دی جائیں گی؟

پاکستان کی درآمدات میں مسلسل اضافہ کون سے خطرات کا اشارہ ہے؟

ویڈیو

گیس کی عدم موجودگی میں گیزر بند، پانی کیسے کریں گرم؟ عوام کی رائے

’ایئر کراچی‘ کا ہدف کتنے سو جہاز ہیں اور مسافروں کو کیا سہولیات دی جائیں گی؟

وی ایکسکلوسیو: آئین زندہ دستاویز، 27ویں کے بعد مزید ترامیم بھی لائی جا سکتی ہیں، مصطفیٰ کمال

کالم / تجزیہ

ممدانی کی جیت اور وہ خوشی جس پر اعتراض ہوا ؟ 

ٹرمپ کا کامیڈی تھیٹر

میئر نیویارک ظہران ممدانی نے کیسے کرشمہ تخلیق کیا؟