گزشتہ روز اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطہ سے پاکستان رینجرز کی بھاری نفری نے جب پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے سربراہ عمران خان کو گرفتار کیا تو لگ یوں رہا تھا کہ شاید ویسا احتجاج دیکھنے میں نہ آئے جیسا خدشہ تھا۔
سرکاری ٹی وی تو لوگوں کو اس سرخی کے ساتھ مٹھایاں بانٹتے ہوئے دکھا رہا تھا کہ ‘عمران خان کی گرفتاری پر ملک بھر میں جشن’۔ ساتھ ہی ساتھ اسکرین پر نواز شریف، شہباز شریف، مریم نواز اور کبھی کبھی آصف علی زرداری کی گرفتاری کی ویڈیوز ایسی سرخیوں کے ساتھ دکھائی جا رہی تھی ‘عمران خان کے دورِ حکومت میں اپوزیشن لیڈران کی گرفتاری کے مناظر’۔
دوسری طرف ملک بھر سے احتجاج کی خبریں آنی شروع ہوگئیں۔ اسلام آباد میں بھی کچھ راستے انتظامیہ نے حفاطتی نقطہ نظر سے بند کیے اور باقی مظاہرین نے۔ شام ہونے سے پہلے سوشل میڈیا پر احتجاج کی ایسی ویڈیوز گردش کرنا شروع ہوگئیں جو تشویشناک تھیں۔ کور کمانڈر ہاؤس لاہور کو جلا دیا گیا۔ جی ایچ کیو، راولپنڈی، حمزہ کیمپ، فیض آباد پر بھی حملے کیے گئے اسی طرح کی صورتحال پشاور میں بھی رہی۔
اچھی بات یہ ہے کہ پاکستان آرمی کی قیادت نے سمجھداری اور تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے فوراً اور موقع پر فوجی دستوں کو ردِعمل سے روکے رکھا بلکہ یوں لگ رہا تھا کہ مظاہرین کو موقع پر روکنے والا کوئی موجود ہی نہیں۔
اپریل 2022 میں عمران خان کو تحریکِ عدم اعتماد کے نتیجے میں اقتدار سے علیحدہ ہونا پڑا لیکن چند ماہ پہلے تک تحریکِ انصاف اور اس کے حامی یہ تاثر دے رہے تھے کہ چونکہ مقتدر حلقوں کے پاس عمران خان کا کوئی متبادل نہیں اس لیے آئندہ کئی سال ان کی پارٹی حکومت میں رہے گی، حالانکہ بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری اور کورونا کی صورتحال نے ملک کی اقتصادی حالت کو بہت پتلا کیا ہوا تھا اور لوگ پی ٹی آئی کی حکومت سے خوش نہیں لگ رہے تھے، مگر حکومت کی تبدیلی سے ملک کے سیاسی حالات مستحکم ہونے کے بجائے مزید خراب ہونا شروع ہوگئے۔
عمران خان کی گرفتاری کے بعد پیدا شدہ سیاسی صورتحال کے حوالے سے جب ممتاز سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ پہلے سے خراب سیاسی اور اقتصادی حالات میں مزید خرابی ہوگی۔
عمران خان کی گرفتاری میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عمران خان کے حوالے سے آئی ایس پی آر کے بیان کے 24 گھنٹوں کے اندر رینجرز نے انہیں گرفتار کرلیا۔ بظاہر تو ایسے واقعات میں کوئی ثبوت نہیں ہوتا مگر واقعاتی شہادتوں سے اسٹیبلشمنٹ کے کردار کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
سینئر سیاستدان اور مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ قانونی طور پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران کی گرفتاری کو غلط قرار نہیں دیا مگر سیاسی طور پر یہ غلط وقت پر ایک غلط فیصلہ ہے۔ جس طرح ایک سابق وزیرِاعظم کو پیرا ملٹری فورسز کے ذریعے گرفتار کیا گیا ہے وہ طریقہ بہت ہی غیر مناسب تھا۔ اس سے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر غلط پیغام گیا ہے اور یہ گرفتاری سے زیادہ ایک قسم کا اغوا لگتا ہے۔ اس فیصلے کے بہت غلط نتائج نکلنے کے امکانات ہیں۔
ممتاز تجزیہ کار اور سینئر صحافی مجیب الرحمن شامی کا کہنا تھا عمران خان کی گرفتاری کے بعد ظاہر ہے تلخی اور سیاسی تقسیم مزید بڑھے گی۔ عمران خان بھی بات چیت پر آمادہ نہیں تھے اور حکومت بھی مذاکرات میں سنجیدہ نہیں لگتی تھی۔ عمران خان کی گرفتاری کے حوالے سے اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ اسٹیبلشمنٹ پوری طرح حکومت کے ساتھ کھڑی ہے۔ آپ اسے آئنیی ذمہ داری کہیں یا اس تعلق کو کوئی اور نام دیں’۔
نامور مؤرخ اور دانشور ڈاکٹر مبارک علی کہتے ہیں کہ پہلے تو ایسی صورتحال میں عموماً مارشل لا لگ جاتا تھا گوکہ عام آدمی کی زندگی اس سے بھی مزید خراب ہی ہوتی۔ ڈاکٹر مبارک علی اور مجیب الرحمان شامی کا خیال ہے کہ موجودہ حالات میں مارشل لا کا نفاذ ممکن نہیں لگتا۔ عمران خان کی گرفتاری کے بعد ہونے والے ردِعمل کے حوالے سے شامی صاحب سمجھتے ہیں کہ ایک طرف تحریکِ انصاف کا عسکری اداروں کی حدود میں ہونے والی توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کے حوالے سے لاتعلقی کا اعلان یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کا اپنے کارکنوں پر قابو نہیں اور دوسرا ادارے جوابی کارروائی نہ کرکے تحریکِ انصاف کو دفاعی پوزیشن میں لے آئے ہیں۔
اس حوالے سے مشاہد حسین سید کا کہنا ہے کہ گزشتہ روز ہونے والے احتجاج سے ایک بات ظاہر ہے کہ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد عوام اور فوج کے درمیان کبھی اتنی بڑی خلیج دیکھنے میں نہیں آئی۔ جنہوں نے عمران خان کو گرفتار کیا ہے شاید وہ عوامی ردِعمل کا اندازہ لگانا چاہ رہے تھے اور اب تک انہیں اندازہ ہوچکا ہوگا کہ یہ کتنا سنجیدہ معاملہ ہے۔ یاد رہے کہ پختوںخواہ اور بلوچستان سے اگر یہ ردِعمل آتا تو اتنی اہم بات نہیں ہوگی مگر یہ ردِعمل پنجاب میں شدت سے آیا ہے۔
آئندہ سیاسی امکانات کے حوالے سے مجیب الرحمان شامی کا کہنا تھا کہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے لگ رہا ہے کہ شاید انتخابات ہی ہاتھ سے نکل جائیں لیکن تجربے نے ثابت کیا ہے کہ سب سیاسی طاقتوں کو سیاسی دائرے سے خارج نہیں کیا جاسکتا۔
ڈاکٹر مبارک علی کا خیال ہے کہ راستے تو ہمیشہ نکلتے ہیں لیکن انتہا پسندی دونوں طرف ہو تو راستے بند ہوجاتے ہیں جبکہ مشاہد حسین کا کہنا ہے کہ جب ایک طرف سے بند گلی آجائے تو وہیں سے رستہ نکلتا ہے۔
سیاسی صورتِ حال اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ سیاست کی بساط پر بچھائے ہوئے مہروں کی چلی ہوئی ایک بھی چال بساط ہی الٹ سکتی ہے اور خود کھلاڑی بھی نہیں جانتے کہ ان کی اگلی چال ان کی کامیابی کا باعث بنے گی یا ان کی نیا ہی ڈبو دے گی۔
لگتا ہے کہ سیاسی لڑائی کا یہ آخری پڑاؤ ہے