رات کا دوسرا پہر تھا۔ خیبر پختونخوا کے ایک پہاڑی گاؤں میں سب سو رہے تھے۔ اچانک آسمان پر بادل یوں گرجے جیسے کسی نے ہزار توپوں کے گولے داغ دیے ہوں۔ لمحوں بعد پہاڑوں سے ایک خوفناک ریلا وادی کی طرف لپکا۔ وہ گاؤں جس کی چوٹیوں پر روشنی، زندگی کی بھرپور علامت تھی، پلک جھپکتے ہی چیخوں اور اندھیروں میں ڈوب گیا۔ یہ کوئی کہانی یا فرضی افسانہ نہیں، بلکہ ایک ایسی تلخ حقیقت ہے جو ہر سال ہمارے شمالی علاقوں میں دہرائی جا رہی ہے۔ اسے کبھی کلاؤڈ برسٹ کہا جاتا ہے، کبھی فلڈ اور کبھی ’قدرتی آفت‘۔ مگر اصل سوال یہ ہے کہ یہ سب کہاں سے جنم لیتا ہے اور ہم بطور ریاست و معاشرہ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے کیا کر رہے ہیں؟
اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان دنیا کے ان 10 ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ مون سون کی بارشوں میں 20 سے 30 فیصد اضافہ ہوچکا ہے، شمالی گلیشیئر ہر سال ایک میٹر سے زیادہ پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ صرف 2022 کے سیلاب نے پاکستان کو 30 ارب ڈالر سے زائد نقصان پہنچایا اور 3کروڑ سے زیادہ افراد متاثر ہوئے۔
ماہرین بتاتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی سب سے بڑی محرک ہے۔ پچھلی 3دہائیوں میں پاکستان کا درجہ حرارت اوسطاً 0.6 ڈگری بڑھ چکا ہے، جس سے بارشوں کا نظام بگڑ گیا اور گلیشیئر تیزی سے پگھلنے لگے۔ خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان میں موجود 7ہزار سے زائد گلیشیئر دنیا کا سب سے بڑا گلیشیائی نظام ہیں، جن کے پگھلنے سے اچانک جھیلیں پھٹتی ہیں اور وادیوں کو بہا لے جاتی ہیں۔
دوسری جانب جنگلات کی بے دریغ کٹائی نے زمین کی بارش روکنے کی صلاحیت چھین لی ہے۔ آج پاکستان کا جنگلاتی رقبہ صرف 5 فیصد رہ گیا ہے جو عالمی معیار سے بہت کم ہے۔ یوں بارش کا پانی جذب ہونے کے بجائے سیدھا بستیاں اجاڑ دیتا ہے۔ اس پر مستزاد غیر منصوبہ بندی، دریاؤں کے کنارے گھر اور دکانیں بنانے کا رجحان اور بڑھتی ہوئی آبادی کا دباؤ، سب مل کر تباہی کو کئی گنا بڑھا دیتے ہیں۔
ہمارے ادارے، مثلاً NDMA اور PDMA، ایمرجنسی کے وقت حرکت میں تو آتے ہیں مگر وسائل اور تربیت کی کمی کے باعث ان کی کارکردگی محدود رہتی ہے۔ جامعات میں تحقیق ضرور ہو رہی ہے، خصوصاً پشاور یونیورسٹی، COMSATS اور قائداعظم یونیورسٹی میں کلائمیٹ چینج پر تحقیقی منصوبے جاری ہیں، لیکن فنڈنگ ناکافی ہے۔ پارلیمان نے 2017 میں کلائمیٹ چینج ایکٹ پاس کیا اور وزارت بھی قائم کی، مگر قوانین پر عملدرآمد کمزور ہے۔
اس مسئلے کا علاج وقتی امداد یا صرف بیانات سے ممکن نہیں۔ خطرناک مقامات پر تعمیرات پر پابندی، چھوٹے ڈیمز اور ذخائر کی تعمیر، بڑے پیمانے پر شجرکاری، مقامی آبادیوں کی تربیت اور جدید Early Warning System ناگزیر ہیں۔ سب سے بڑھ کر آبادی کے بے قابو دباؤ اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم پر قابو پانا ہوگا۔
بونیر میں 10سالہ طالب علم پانی کی نذر ہوگیا۔ اس کی ماں، آنکھوں میں آنسو اور دل میں امید کا ملبہ لیے، بس اتنا کہہ سکی: ’میں نے اسے کل ہی کہا تھا کہ نیا یونیفارم لائیں گے۔ وہ پڑھ لکھ کر بڑا افسر بنے گا۔ لیکن پانی نے سب کچھ بہا دیا۔‘ یہ دکھ صرف ایک ماں کا نہیں تھا، بلکہ ان لاکھوں خاندانوں کا تھا جن کے خواب اور مستقبل سیلاب کے ریلا بہا لے گیا۔
سوات کی ایک ضعیف العمر خاتون ایک صحافی کو بتا رہی تھی کہ ’اس کی عمر 70سال ہے، اتنا زیادہ سیلابی پانی میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ میرے شوہر اور بیٹے کی قبریں تک بہہ گئیں۔ اب میں دعا کہاں کروں گی؟‘ خیبر پختونخواہ میں اب تک نقصانات کا مکمل تخمینہ نہیں لگایا جاسکا۔ لوگ سکتے ہیں اور کچھ نہیں کرسکتے۔
اس ساری صورتحال میں ہماری حکومتوں اور اہل سیاست کا طرز عمل انتہائی تکلیف دہ ہے۔ پارلیمان میں عوامی ضروریات اور دلچسبی کے موضوعات پر کوئی بامقصد بات نہیں ہوتی اور جو گفتگو ہوتی ہے، بدقسمتی سے لکھنا پڑ رہا ہے کہ اس سے بہتر گفتگو ہمارے ہاں چائے کے ڈھابوں اور نائی کی دکانوں پر ہوتی ہے۔ بے حسی کے شامیانے کے سائے تلے ہم سب ایک دوسرے کا منہ دیکھ رہے ہیں۔
سیلاب اور کلاؤڈ برسٹ صرف قدرتی آفات نہیں بلکہ ہماری اجتماعی غفلت اور کمزور پالیسیوں کا نتیجہ ہیں۔ اگر اب بھی ہم نے سنجیدگی نہ دکھائی تو آنے والے برسوں میں یہ تباہی کہیں زیادہ ہولناک ہوگی۔ اس کا احساس ہر برس ہمیں ہو رہا ہے لیکن ہمارے حکمران اور ان کے حکمران کسی اور ہی چکر میں چکرا رہے ہیں۔ باقی رہا ہمارا معاملہ تو ہم آبادی تو بڑھا رہے ہیں مگر وسائل، ماحول اور مستقبل کے تحفظ کے لیے کچھ نہیں کر رہے۔ یہی ہماری سب سے بڑی اجتماعی ناکامی ہے۔
سید ضمیر جعفری نے یوں ہی تو نہیں کہا تھا کہ
شوق سے لخت جگر نور نظر پیدا کرو
ظالمو تھوڑی سی گندم بھی مگر پیدا کرو
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔