نفرت کی آگ میں جلتی تاریخ

جمعرات 11 مئی 2023
author image

اکمل شہزاد گھمن

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

10 مئی کی سہ پہر ریڈیو پاکستان پشاور کو آگ لگائی گئی تو یہ پاکستان کی سب سے بڑی خبر بن گئی۔ تیزی سے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز میں سے ایک 24 سیکنڈ کی ویڈیو جس میں ریڈیو پاکستان پشاور کی عمارت شعلوں میں لپٹی ہوئی ہے اور آسمان کی طرف اٹھتے بادل ایک دردِ دل رکھنے اور پشاور ریڈیو کی تاریخ سے آگاہ فرد کو دل گرفتہ کرنے کو کافی ہیں۔ بے ساختہ جذبات کو الفاظ کی شکل دے کر یوں یہ ویڈیو ٹویٹ کر دی۔

“یہ ریڈیو پاکستان پشاور ہی نہیں تاریخ جل رہی ہے۔ یہ وہ اسٹیشن ہے جہاں ن م راشد، استاد نتھو خان ،احمد ندیم قاسمی، احمد فراز اور حمید نسیم جیسے عہد ساز نگینے کام کرتے رہے ہیں۔ افسوس پاکستان جل رہا ہے۔”

گزشتہ روز عمران خان کی اسلام آباد میں رینجرز کے ہاتھو ں گرفتاری کے بعد ملک بھر میں ہنگامے پھوٹ پڑے تو ریڈیو پاکستان پشاور سے ملحقہ احاطے میں چاغی پہاڑ کے ماڈل کو آگ لگا دی گئی۔ ریڈیو پاکستان کی کم و بیش 45 کنال پر مشتمل موجودہ عمارت پشاور کے انتہائی حساس علاقے میں واقع ہے۔ ریڈ زون قرار دیے گئے اس علاقے میں جی ٹی روڈ پر ریڈیو کے ارد گرد کور کمانڈر ہاؤس ،پشاور ہائی کورٹ اور جوڈیشل کمپلیکس اور صوبائی اسمبلی سمیت تاریخی قلعہ بالا حصار واقع ہے۔

ریڈیو پاکستان کے ریٹائرڈ کنٹرولر خالد شیرازی تاریخ اور سماجی علوم پر گہری نظر رکھتے ہیں۔انھوں نے بتایا کہ مارکونی کمپنی نے جنوری 1935 میں گورنمنٹ آف سرحد کو ایک چھوٹا ٹرانسمیٹر اور چند ریڈیو سیٹ بطور تحفہ دیے۔ موجودہ پاکستان کے علاقے میں یہ پہلا ریڈیو اسٹیشن تھا جو پشاور سیکریٹریٹ کے احاطے میں ایک عمارت میں قائم ہوا۔ محکمہ زراعت کے ڈائریکٹر کرنل نوئیل جو ریڈیائی لہروں کے ذریعے زرعی پیدا وار بڑھانے کے تجربات کرتے تھے وہ ریڈیو پشاور کے انچارج مقرر ہوئے۔ اسلم خٹک ان کے معاون تھے۔ یہ وہی اسلم خٹک ہیں جو بعد ازاں گورنر سرحد، کئی ممالک میں پاکستان کے سفیر، جنرل ضیاء کی مجلسِ شوریٰ کے ممبر اور نواز شریف کے پہلے دورِ حکومت میں وفاقی وزیر سمیت کئی اہم عہدوں پر تعینات رہے۔ کلثوم سیف اللہ اسلم خٹک کی بہن تھیں ۔

اس ریڈیو کا مقصد دیہی ترقی میں کردار ادا کرنا تھا۔ یکم اپریل 1935 کو آل انڈیا ریڈیو نے اس ریڈیو کو اپنی تحویل میں لے لیا اور اسلم خٹک ریڈیو پشاور کے پہلے اسٹیشن ڈائریکٹر بنے۔ منور سلطانہ، شمشاد بیگم، بمبئی کی فلم نگری میں بعد ازاں بہت نام کمانے والے موسیقار رفیق غزنوی، استاد نتھو خان سارنگی نواز، نامور موسیقار استاد نذر حسین، امراؤ ضیاء بیگم اور ماسٹر غلام حیدر نے بھی پشاور ریڈیو پر کام کیا۔ منور سلطانہ اپنے وقت کی معروف گلو کارہ تھیں، جب کہ شمشاد بیگم نے بھارت میں بھی بے پناہ نام کمایا۔ ماسٹر غلام حیدر وہی موسیقار ہیں جنھوں نے بمبئی کی فلم نگری میں لتا منگیشکر کو بریک دیا تھا۔

جنرل ایوب کے زمانے میں وفاقی سیکرٹری اطلاعات رہنے والے الطاف گوہر، احمد ندیم قاسمی، ضیاء جالندھری، ایس اے حمید، قاضی سعید، حمید نسیم اور احمد فراز بھی مختلف حثیتوں میں ریڈیو پشاور سے وابستہ رہے۔

قیامِ پاکستان کے وقت لاہور، پشاور اور ڈھاکہ میں تین ہی ریڈیو اسٹیشن قائم تھے۔ 13 اور 14 اگست 1947 ء کی درمیانی رات لاہور، پشاور اور ڈھاکہ سے علیحدہ علیحدہ پاکستان کے قیام کا اعلان ہوا۔ لاہور میں پہلے انگریزی میں ظہور احمد آذر اورپھر اردو میں مصطفےٰ علی ہمدانی نے جب کہ پشاور سے عبد اللہ جان مغموم نے پشتو اور آفتاب احمد نے اردو میں قیام  پاکستان کی اناؤنسمنٹ کی۔ مصطفےٰ علی ہمدانی صاحب کی آواز میں جو قیامِ پاکستان کی اناؤسمنٹ ملتی ہے وہ پاکستان کے قیام کے کئی برس بعد ریکارڈ ہوئی کیوں کہ جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا تھا اس زمانے میں ریکارڈنگ کی سہو لت عام نہیں تھی۔

پشاور ریڈیو اسٹیشن قیامِ پاکستان کے وقت کیسا تھا، اس کا نقشہ 17 اکتوبر 1945ء میں بطور پروگرام اسسٹنٹ جوائن کرنے والے حمید نسیم اپنی آپ بیتی ” ناممکن کی جستجو میں یوں کھینچا ہے،” تانگہ میں بیٹھ کر ریڈیو اسٹیشن پہنچا۔ ریڈیو کے گیٹ پر ایک چپڑاسی اور ایک کانسٹیبل رائفل اٹھائے کھڑے تھے۔ ” ” سٹیشن کی عمارت کے سامنے ایک چھوٹا سا خوب صورت لان تھا۔ روشوں پرسرخ گلاب کی جاڑیاں تھیں۔ پشاور کا گلاب بہت سُرخ اور بہت بڑا ہوتا ہے۔ ایسا گلاب پاکستان میں اور کہیں شاید ہی ہوتا ہو”۔

ریڈیو پاکستان کی موجودہ عمارت کا افتتاح 1987ء میں صدرِ پاکستان جنرل ضیاء نے کیا تھا۔ ایک طرف سٹوڈیوز اور دوسری طرف ایڈمنسٹریشن کا چار منزلہ بلاک ہے۔

ریڈیو پاکستان پشاور کے سینئر پروڈیوسر جمیل بشر نے بتایا کہ ریڈیو پشاور نے افغان جنگ میں بھی بہت کلیدی کردار ادا کیا۔ آج بھی پشاور، گردو نواح اور افغانستان تک ریڈیو پاکستان کی نشریات سُنی جاتی ہیں اور ریڈیو ابلاغ عامہ کی تمام تر ترقی کے باوجود اپنی ایک اہمیت رکھتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ایک دن پہلے جب ریڈیو سے ملحقہ احاطے میں چاٖغی پہاڑ کے ماڈل کو آگ لگائی گئی تو ڈی پی او پشاور اور آئی جی آفس تک فون کرتے رہے مگر کوئی نہیں آیا۔ ریڈیو پاکستان پشاور کے ایک ڈرائیور شبیر نے بتایا کہ تقریباً 11 بجے دن 60 ،70 کے قریب شر پسند آئے اور آتے ہی استقبالیہ پر توڑ پھوڑ شروع کر دی۔ پولیس کے آنے پر یہ لوگ چلے گئے۔ پولیس بھی چلی گئی تو تھوڑی دیر بعد یہ لوگ دوبارہ آگئے۔

جمیل بشر نے بتایا کہ سامنے پولیس والے کھڑے تھے مگر وہ نہیں آئے۔ پولیس کو بار بار فون کرتے رہے مگر کوئی مدد کو نہیں آیا۔ شاید ریڈیو کے ارد گرد پولیس کی ترجیح کور کمانڈر ہاؤس کی حفاظت تھی۔ ریسکیو کی صورتِ حال کا اندازہ اس سے لگائیں کہ ہنگامہ آرائی کرنے والوں کی لگائی گئی آگ جل کر خود ہی بجھ گئی ہے مگر کوئی اس بجھانے نہیں آیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ ایڈمن بلاک کی چاروں منزلیں ریکارڈ سمیت مکمل جل گئی ہیں۔ البتہ شکر ہے کہ سٹوڈیوز ایریا اور ریکارڈنگز بچ گئی ہیں۔

شبیر ڈرائیور نے بتایا کہ حملہ آور نشئی، بھنگی، موالی اور چور اُچکے لگتے تھے۔ انھوں نے ایک بھی کمپیوٹر نہیں چھوڑا، چند موٹر سائیکل جو نہیں لے جا سکتے تھے ان میں سے کچھ کے انجن کھول کر لے گئے ہیں۔ جو اُتر سکے وہ اے سی بھی اتار کر لے گئے۔ کئی گاڑیوں کو آگ لگا دی اور کچھ کو توڑ پھوڑ دیا۔ 12 سے 22 سال کی عمر کے لوگوں میں سے کوئی بھی بڑا نہیں تھا۔ ان لوگوں میں سے کچھ کے پاس خنجر جب کہ سینئر پروڈسر جمیل بشر کے مطابق کچھ پٹرول بمبوں سے لیس تھے۔

شبیر نے تفصیل بیان کرتے ہوئے کہا کہ حملہ آور بند گیٹ توڑ کر اندر داخل ہوئے۔ دو تین ریڈیو کے سیکورٹی گارڈ تھے اور دو تین ہی پولیس والے ریڈیو پر ڈیوٹی دیتے ہیں۔ مگر وہ اتنی تعداد میں حملہ آور لوگوں کے سامنے بے بس تھے۔ پولیس والوں نے اپنا اسلحہ چھُپا دیا تاکہ وہ بلوائیوں کے ہاتھ نہ لگ سکے اور وہ کوئی مزید نقصان نہ کر سکیں۔

جمیل بشر کا کہنا تھا ریڈیو کے کئی ملازمین کھڑکیوں کے شیشے توڑ کر باہر آئے اور اپنی جان بچائی۔ شبیر نے بتایا کہ ریڈیو کی عمارت کے اندر چالیس کے قریب لوگ محصور تھے۔ ہیڈ کوارٹر سے فون پر رابطہ تھا۔ ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل طاہر حسن بار بار فون کرکےمسلسل ملازمین کا حوصلہ بڑھا رہے تھے۔ مکمل ذمہ داری سے خبر دینے والا ادارہ خود خبر بن چُکا تھا۔ پھولوں کے شہر میں آگ بھڑک رہی تھی اور اس آگ میں ریڈیو پشاور کے روپ میں پاکستان کی تاریخ جل رہی تھی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اکمل گھمن تحریر و تحقیق کی دنیا کے پرانے مسافر ہیں۔ 'میڈیا منڈی' اور پنجابی کہانیوں کی کتاب 'ایہہ کہانی نہیں' لکھ کر داد وصول کر چکے ہیں۔ بی بی سی اردو سمیت مختلف اداروں کے ساتھ لکھتے رہے ہیں۔ آج کل وی نیوز کے لیے باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp