خیبر پختونخوا کے حسین وادیوں والے اضلاع سوات اور بونیر پر قدرت کا ایسا قہر نازل ہوا جس نے ہر ذی روح کو لرزا کر رکھ دیا۔ یہ وہ وادیاں ہیں جو اپنی سرسبز پہاڑیوں، بل کھاتے دریاؤں اور خوبصورت مناظر کے باعث جنت نظیر سمجھی جاتی ہیں۔ یہاں زندگی پرسکون انداز میں بہتی ہے، لیکن اس سکون کو ایک قیامت خیز لمحے نے چیر ڈالا۔
ایک عام دن تھا، آسمان پر گھنے بادل چھائے ہوئے تھے۔ ہوا میں نمی کا بوجھ اور گھٹن تھی۔ گاؤں کے مرد کھیتوں اور بازاروں میں اپنے روزمرہ کے کاموں میں مصروف تھے۔ عورتیں گھروں میں بچوں کے ساتھ معمولات زندگی سنبھال رہی تھیں۔ کسی کو گمان تک نہ تھا کہ یہ بادل اپنی جھلک دکھانے کے بعد بارش کے چند قطرے نہیں بلکہ موت کا پیغام لائیں گے۔
اچانک ایک زور دار دھماکے جیسی آواز گونجی، یہ کوئی زمینی دھماکا نہیں تھا بلکہ آسمانی عذاب کی علامت تھی۔ لمحوں کے اندر ایک پہاڑی پر کلاؤڈ برسٹ ہوا، بادل گویا پھٹ گئے۔ آسمان کا بوجھ پہاڑ پر گرا اور پہاڑ سے پانی کا ایک عظیم الشان ریلا گرجتا ہوا نیچے اترا۔ لمحوں میں ندی نالے ابلنے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے بستیاں، کھیت اور مکانات صفحہ ہستی سے مٹنے لگے۔
مینگورہ اور بونیر میں تباہی
تحقیقات کے مطابق ایلم پہاڑی سے برسنے والے پانی کا تقریباً 20فیصد حصہ مینگورہ کی سمت گیا۔ شہر میں اچانک نالے بھڑک اٹھے اور لوگ حیران رہ گئے کہ بارش کے بغیر پانی کہاں سے آیا۔ لیکن اصل تباہی اس وقت برپا ہوئی جب 80فیصد سے زائد پانی پیر بابا ضلع بونیر کی طرف لپکا۔ پانی ایک وحشی درندے کی طرح راستے کی ہرشے کو روندتا ہوا بشونئی گاؤں، ڈگر اور تورغر تک پہنچا۔
ہمیں صرف 15منٹ کا وقت ملا،ایک عینی شاہد نے بتایا کہ پانی اتنی تیزی سے آیا کہ نہ بچوں کو سنبھالنے کا موقع ملا، نہ بزرگوں کو نکالنے کا۔ جو سامنے آیا، سب بہہ گیا۔ لوگوں نے بھاگنے کی کوشش کی لیکن وہ لمحے قسمت اور قدرت کے فیصلے کے تھے۔ جو چند قدم دور تھے، بچ گئے، جو پانی کے سامنے آئے، وہ بہہ گئے۔
9سیکنڈ فی کلو میٹر
یہ محض بارش کا پانی نہیں تھا بلکہ موت کی ایک سرکش لہر تھی۔ اندازوں کے مطابق پانی نے 100کلو میٹر کا فاصلہ صرف 15منٹ میں طے کیا۔ اس رفتار کا مطلب ہے کہ پانی نے ہر کلو میٹر صرف 9سیکنڈ میں عبور کیا۔
ذرا سوچیے! 9سیکنڈ میں انسان بمشکل دوڑنے کے لیے ایک قدم جمانے کی کوشش کرتا ہے، لیکن یہاں موت 9سیکنڈ میں ایک کلو میٹر طے کر رہی تھی۔ نہ پہاڑیوں کا ڈھلوان اسے روک سکا، نہ درخت اس کے آگے ڈٹ سکے۔ جو مکانات سامنے آئے وہ یوں بہہ گئے کہ جیسے کبھی وجود ہی نہ رکھتے ہوں۔
گاؤں صفحہ ہستی سے مٹ گئے
کچھ گھنٹوں کے اندر وہ منظر سامنے آیا جس نے اہلِ علاقہ کو دہلا کر رکھ دیا۔ پیر بابا کا 80 فیصد گاؤں مکمل تباہ ہوگیا۔ بشونئی گاؤں کے 50 فیصد گھر ملبے کا ڈھیر بن گئے۔ لوگ ہاتھوں میں بیلچے اور کدالیں لے کر اپنے پیاروں کو ملبے میں ڈھونڈنے لگے، لیکن زیادہ تر جگہوں پر صرف پتھر، کیچڑ اور ٹوٹی دیواریں ملیں۔ پانی کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ تورغر سے آگے دریائے سندھ کے قریب 2خواتین کی لاشیں ملی ہیں، جو پیر بابا سے تقریباً 100 کلو میٹر دور بہہ کر پہنچی تھیں۔
خواتین اور بچے زیادہ متاثر
اس ہولناک سانحے نے سب سے زیادہ خواتین، بچے اور معمر افراد کو نشانہ بنایا۔ نوجوان مرد چونکہ گھروں سے باہر کھیتوں اور دیگر کاموں میں مصروف تھے، اس لیے بڑی تعداد میں بچ گئے۔ لیکن گھروں میں موجود مائیں، بہنیں، بچے اور بزرگ پانی کی نذر ہوگئے۔ ایک مقامی شخص کا کہنا تھا کہ ’ہمارے گاؤں میں اب مرد تو ہیں، مگر عورتیں اور بچے نہ ہونے کے برابر ہیں۔ پورا سماج اجڑ گیا ہے۔‘
علاقے کے کئی گھروں میں صرف ایک 2افراد بچے ہیں، باقی سب موت کے حوالے ہوگئے۔ یہ صرف اعداد و شمار نہیں بلکہ انسانوں کے اجڑتے ہوئے خواب اور بکھرتے ہوئے خاندان ہیں۔
اسی طرح بونیر میں اب تک 222 لاشیں برآمد ہوچکی ہیں۔ لیکن یہ تعداد آخری نہیں۔ سیکڑوں افراد تاحال لاپتہ ہیں۔ امدادی کام جاری ہیں لیکن راستے تباہ ہونے کے باعث مشکل سے آگے بڑھ پا رہے ہیں۔ کئی خاندان ایسے ہیں جن کے سب افراد بہہ گئے۔ کچھ جگہوں پر والدین کی لاشیں ملی ہیں لیکن بچے غائب ہیں، کہیں بچے مل گئے ہیں لیکن والدین نہیں۔ یہ المیہ صرف اعداد کا نہیں بلکہ ہر گھر کے ٹوٹنے اور ہر دل کے بکھرنے کی کہانی ہے۔
قیامت لمحوں میں اتری
یہ واقعہ پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے انسانی المیوں میں شمار کیا جا رہا ہے۔ ایلم پہاڑی پر برسنے والے اس کلاؤڈ برسٹ نے صرف زمین کو نہیں چرایا بلکہ نسلوں کے خواب اور محبتیں بھی بہا دی ہیں۔ آج بونیر اور سوات کے متاثرہ گاؤں خاموشی کی تصویر بنے ہیں۔ ہر طرف ملبے کے ڈھیر، ٹوٹی ہوئی چھتیں، اکھڑے ہوئے درخت اور اجڑے ہوئے کھیت ہیں۔ ان کے بیچ سے گزرتے ہوئے صرف ایک سوال ہر دل پر دستک دیتا ہے: کیا انسان کبھی قدرتی آفات سے محفوظ رہ سکے گا؟
انسان مکمل طور پر قدرتی آفات سے محفوظ نہیں رہ سکتا کیونکہ یہ زمین کے قدرتی نظام کا حصہ ہیں، مگر علم، ٹیکنالوجی اور منصوبہ بندی کے ذریعے ان کے اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔ جدید پیش گوئی کے نظام، مضبوط انفراسٹرکچر اور ایمرجنسی مینجمنٹ کے ساتھ ساتھ ماحول کا تحفظ اور قدرتی وسائل کا درست استعمال بھی ضروری ہے تاکہ آفات کی شدت کم ہو اور جانی و مالی نقصان گھٹایا جاسکے۔ اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ آفات کو روکا نہیں جاسکتا، لیکن انسان اپنی تیاری اور ذمہ دار طرزِ عمل سے زیادہ محفوظ رہنے کے قابل ضرور ہوسکتا ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔