اس تباہی کا کون ذمہ دار ہے؟

منگل 19 اگست 2025
author image

عبید الرحمان عباسی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پختونخوا اور گلگت بلتستان میں حالیہ سیلاب نے ایسی تباہی مچائی ہے کہ پورا ملک لرز کر رہ گیا ہے۔ 500 سے زائد افراد جانبحق ہو چکے ہیں، سینکڑوں زخمی ہیں، اور اربوں روپے کی املاک، سڑکیں، مویشی، فصلیں اور پل پانی میں بہہ چکے ہیں۔

سینکڑوں خاندان بے گھر ہو چکے ہیں، اور ریاستی ادارے لوگوں کو بچانے اور نقصان کا تخمینہ لگا رہے ہیں۔

لیکن یہ سب صرف قدرت کی ’ناراضی‘ ہی نہیں، یہ ہماری کئی دہائیوں کی لاپرواہی، ماحولیاتی جرم اور درختوں کے قتلِ عام کا نتیجہ ہے۔

درختوں کی کٹائی  ایک منظم سازش:

درختوں کی کٹائی کا آغاز آج یا گزشتہ چند سالوں میں نہیں ہوا۔ یہ سلسلہ جنرل ضیا الحق کے دورِ حکومت میں منظم طریقے سے شروع ہوا، جب ان کے قریبی لوگوں، وزیروں اور بعض بااثر شخصیات نے کوہستان، ایبٹ آباد اور مانسہرہ جیسے جنگلاتی علاقوں میں جنگلات کی بے دریغ کٹائی شروع کی۔

ٹمبر مافیا آج بھی سرگرم ہے، اور جنگلات کو نقصان پہنچا کر اربوں کماتا ہے، جبکہ عوام ہر سال سیلاب، لینڈ سلائیڈنگ اور موسمی شدت کا سامنا کرتے ہیں۔

اور مورد الزام کلاوڈ برسٹ اور کلایمٹ چنج کو دیا جا رہا ہے، تا کہ اصل وجہ سے توجہ ہٹائی جائے۔ وزرا اور مشیر رنگ برنگی ٹائیاں پہن کر موسمیاتی تبدیلی کو defend کر تے نظر آ رہے ہیں، اور اصل مسئلہ پر کوئی بات نہیں کر رہا۔

حکومتِ خیبر پختونخوا کی تسلیم شدہ رپورٹ :

سپریم کورٹ میں اعتراف: جنگلات کی کٹائی کے جرم پر پردہ ڈالنا اب ممکن نہیں رہا، کیونکہ خود خیبر پختونخوا حکومت نے گزشتہ سال 2024 میں سپریم کورٹ میں ایک رپورٹ جمع کروائی جس میں بتایا گیا کہ صرف ایک سال میں 60 لاکھ مکعب فٹ لکڑی قانونی طور پر کے پی مین کاٹی گئی، جبکہ 1 لاکھ مکعب فٹ لکڑی غیر قانونی طور پر کاٹ کر ضبط کی گئی۔

یہ اعداد و شمار سرکاری سطح پر درختوں کی بے تحاشا کٹائی کا کھلا ثبوت ہیں۔ اگر یہ ’قانونی‘ مقدار ہے، تو تصور کریں کہ کتنے درخت غیر قانونی طور پر کاٹے گئے ہوں گے، جن کا کوئی حساب ہی نہیں۔ حیرت انگیز طور پر کسی کو سزا نہیں ہوئی، کیو نکہ سب ملے ہوتے ہیں۔

دریاؤں کے کناروں پر تجاوزات اور آفات کو دعوت:

جہاں درختوں کو کاٹ کر پہاڑوں کو ننگا کیا گیا، وہیں دریا کے قدرتی راستوں کو بھی بند کر دیا گیا۔ دریاؤں، نالوں اور برساتی گزر گاہوں پر گھروں، ہوٹلوں اور سڑکوں کی تعمیر کی گئی، جس نے پانی کے قدرتی بہاؤ کو روکا اور جب بارش آئی تو پانی نے اپنے راستے خود بنائے جو تباہی کے راستے تھے۔

نقصان — جو روکا جا سکتا تھا

500 سے زائد افراد کی ہلاکت، سینکڑوں زخمی، اربوں کی املاک اور فصلیں تباہ سڑکیں، پل، اور بنیادی ڈھانچہ درہم برہم، ہزاروں خاندان بے گھر۔ اور سب سے افسوس ناک بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ روکا جا سکتا تھا، اگر ہم نے درختوں کو بچایا ہوتا، دریا کو اس کا راستہ دیا ہوتا، اور مافیا کے آگے بند باندھا ہوتا۔

سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ ذمہ داری کس کی ہے؟

درختوں کی بے دریغ کٹائی کی اجازت کس نے دی؟

ٹمبر مافیا کو سیاسی سرپرستی کس نے دی؟

دریا کے راستوں پر قبضہ کرنے والوں کو کس نے روکا؟

ماحولیاتی قانون نافذ کیوں نہیں ہوا؟

مگر ان کو کیا، عوام تو مر رہے ہیں، اور مرتے رہیں گے، اور مجرم آزاد گھومتے رہےگے۔ امدادیں آئی گی اور ھڑپ کر دی جائیں گی۔ اور پھر اگلے سال کا انتظار ہو گا اور ایسے ہے چلتا رہے گا۔

آخر کیا کیا جائے؟

  1. 1. ریلیف کے ساتھ سخت احتساب: صرف امداد نہیں، بلکہ ذمہ داروں کا عوامی احتساب ہو۔
  2. 2. درختوں کی کٹائی پر مکمل پابندی: قانوناً اور عملی طور پر۔
  3. 3. ٹمبر مافیا کے خلاف بھرپور کارروائی: چاہے وہ کتنے ہی بااثر کیوں نہ ہوں۔
  4. 4. دریاؤں کے کناروں سے تجاوزات کا مکمل خاتمہ
  5. 5. شجر کاری، قدرتی نظام کی بحالی، اور عوامی شعور کی بیداری

اب بھی وقت ہے، یہ سیلاب صرف بارش کی شدت نہیں، بلکہ ہماری اجتماعی نالائقی اور خود غرضی کا نتیجہ ہے۔ ہم نے درخت کاٹے، پہاڑ ننگے کیے، دریا بند کیے — اور اب لاشیں اٹھا رہے ہیں۔

اگر اب بھی خاموش رہے تو اگلی بار نقصان شاید ناقابلِ تصور ہوگا۔

درخت بچائیں۔ دریا  کے راستوں کو آزاد کریں۔ اور انسانی زندگیوں اور املاک کا بچائیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

مصنف سابق سینئر ایڈیشنل ڈائریکٹر لاء پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی اور اسلام آباد میں مقیم ایوی ایشن اینڈ انٹرنیشنل لاء کنسلٹنٹ ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp