ایران کے وزیرِ خارجہ عباس عراقچی نے کہا ہے کہ وہ اقوامِ متحدہ کے ایٹمی نگرانی کے ادارے (آئی اے ای اے) کے ساتھ تعاون مکمل طور پر ختم نہیں کر سکتا تاہم معائنہ کاروں کی واپسی کا فیصلہ ملک کے اعلیٰ سیکیورٹی حکام کریں گے۔
عباس عراقچی نے کہا کہ ایران کے بوشہر ایٹمی پاور پلانٹ میں آنے والے ہفتوں میں نئے فیول راڈز نصب کرنے ہوں گے جس کے لیے آئی اے ای اے کے ماہرین کی موجودگی ضروری ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پارلیمان کے قانون کے تحت معائنہ کاروں کی واپسی کا فیصلہ سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل کرے گی۔
یہ بھی پڑھیے: ایران جوہری افزودگی ترک نہیں کرے گا یہ قومی وقار کا مسئلہ ہے، عباس عراقچی
تقریباً 2 ماہ قبل ایران نے اسرائیل کے ساتھ 12 روزہ جنگ کے بعد آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون معطل کر دیا تھا۔ ایران کا مؤقف ہے کہ ایٹمی ادارے نے اسرائیل اور امریکہ کے ایران کے ایٹمی تنصیبات پر حملوں کی مذمت نہیں کی، جس کے باعث پارلیمان کی جانب سے منظور کیے گئے نئے قانون کے بعد معائنہ کار ملک چھوڑ گئے تھے۔
جون کے وسط میں اسرائیل نے ایران کے ایٹمی اور عسکری مراکز پر غیرمعمولی حملہ کیا جس میں رہائشی علاقے بھی متاثر ہوئے۔ اس کے بعد امریکا نے بھی فردو، اصفہان اور نطنز کی تنصیبات کو نشانہ بنایا۔
یہ جنگ ایران اور امریکا کے درمیان نئے جوہری معاہدے پر جاری مذاکرات کو شدید نقصان پہنچا گئی۔ یہ معاہدہ اس ڈیل کی جگہ لینا تھا جسے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 میں ختم کر دیا تھا۔
یہ بھی پڑھیے: اسرائیل سے کسی بھی وقت جنگ دوبارہ چھڑ سکتی ہے، ایرانی نائب صدر
ایران نے حالیہ ہفتوں میں کہا ہے کہ آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون ‘نئی شکل’ اختیار کرے گا۔ رواں ماہ کے آغاز میں ادارے کے ڈپٹی چیف نے تہران کا دورہ کیا اور دونوں جانب سے مشاورت جاری رکھنے پر اتفاق ہوا۔
دریں اثنا، برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے خبردار کیا ہے کہ اگر ایران نے یورینیم افزودگی اور ایٹمی ادارے سے تعاون کے حوالے سے کوئی معاہدہ نہ کیا تو وہ 2015 کے معاہدے کے تحت اٹھائی گئی اقوامِ متحدہ کی پابندیوں کو دوبارہ نافذ کر سکتے ہیں۔













