خیبرپختونخوا: جنگلات کی غیر قانونی کٹائی سیلاب کی بڑی وجہ، حکومتی پالیسی کیا ہے؟

جمعرات 21 اگست 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

خیبرپختونخوا میں جنگلات کی کٹائی کے حوالے سے ایک سخت پالیسی موجود ہے اور باقاعدہ ورک پلان کے تحت محدود مقدار میں کٹائی کی اجازت دی جاتی ہے۔ لیکن صوبے کے شمالی اضلاع میں عملی طور پر اس پر عملدرآمد نظر نہیں آتا اور ہر طرف کاٹے گئے درخت دکھائی دیتے ہیں۔

صوبے کے پہاڑی علاقوں میں حالیہ سیلاب کے بعد حکومت کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔ قدرتی جنگلات کی بے دریغ کٹائی کو بھی ان سیلابوں کی بڑی وجہ قرار دیا جا رہا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اگرچہ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت مسلسل تیسری بار اقتدار میں آکر بلین ٹری سونامی کا دعویٰ کررہی ہے، لیکن قدرتی جنگلات کو بچانے میں وہ سنجیدہ نظر نہیں آرہی۔

یہ بھی پڑھیں: جنگلات میں 18 فیصد کمی، پاکستان قدرتی آفات کے رحم و کرم پر

سوشل میڈیا پر بٹ گرام کے ایک صارف نے ایک ویڈیو شیئر کی، جس میں وہ سیلاب کے بعد صوبائی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ اس ویڈیو میں بٹ گرام روڈ کے کنارے قیمتی عمارتی لکڑی کے بڑے ڈھیر دکھائے گئے اور سوال اٹھایا گیا کہ اگر جنگلات کی کٹائی نہیں ہو رہی تو یہ لکڑی کہاں سے آئی؟

جنگلات کی کٹائی کی پالیسی کیا ہے؟

خیبر پختونخوا حکومت کے مطابق صوبائی محکمہ جنگلات و ماحولیات درختوں کی کٹائی کو روکنے کے لیے سخت حکمتِ عملی پر عمل پیرا ہے۔ محکمہ کے ایک سینیئر افسر نے بتایا کہ صوبے میں دو طرح کے جنگلات ہیں۔ عوامی اور نجی، تاہم کٹائی کی اجازت صرف حکومت ہی دے سکتی ہے۔

ان کے مطابق صرف وہی درخت کاٹنے کی اجازت دی جاتی ہے جو خود بخود گرنے والے ہوں، یا کسی بیماری یا کیڑوں سے متاثر ہو کر خراب ہو رہے ہوں۔ اس مقصد کے لیے ماہرین پر مشتمل ٹیم معائنہ کرتی ہے اور رپورٹ تیار کرنے کے بعد ہی درخت کاٹنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ مزید یہ کہ کٹی ہوئی لکڑی کو ضلع سے باہر لے جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ نجی جنگلات میں بھی کٹائی صرف حکومتی اجازت سے ہی ممکن ہے۔

صوبے میں کتنے درخت کاٹے جاتے ہیں؟

محکمہ کے افسر نے بتایا کہ جنگلات کی کٹائی ایک طویل المدتی پلان کے تحت ہوتی ہے۔ ماہرین منتخب درختوں پر کراس کا نشان لگاتے ہیں، جس کے بعد انہیں کاٹ دیا جاتا ہے۔ تاہم افسر نے یہ بھی تسلیم کیا کہ قانونی کٹائی کے مقابلے میں غیر قانونی کٹائی کہیں زیادہ ہے۔

سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی ایک رپورٹ کے مطابق صوبائی حکومت نے 5 سالہ منصوبے کے تحت 6 ملین مکعب فٹ لکڑی کاٹنے کی اجازت دی تھی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ان حکومتی اجازت ناموں میں اکثر بااثر افراد کا اثر و رسوخ ہوتا ہے۔

غیر قانونی کٹائی

ماہرین کے مطابق جنگلات کی غیر قانونی کٹائی زیادہ خطرناک ہے کیونکہ اس دوران اندھا دھند درخت کاٹے جاتے ہیں، جس سے جنگلات تیزی سے ختم ہو رہے ہیں۔

اکتوبر 2024 کی حکومتی رپورٹ کے مطابق پچھلے 5 سالوں میں ایک لاکھ 30 ہزار 255 مکعب فٹ قیمتی لکڑی اسمگلنگ کے دوران ضبط کی گئی۔ حکام کے مطابق کئی اہلکاروں کو غفلت برتنے پر سزائیں بھی دی گئیں۔

ذرائع نے بتایا کہ صوبے میں بااثر افراد قانونی اجازت ناموں کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک درخت کا پرمٹ لیا جاتا ہے اور درجنوں درخت کاٹ دیے جاتے ہیں، پھر اسی پرمٹ پر اسمگلنگ کی جاتی ہے۔

سب سے زیادہ کٹائی چترال کے ارندو، دیر، کوہستان اور ہزارہ میں ہو رہی ہے، جہاں اجازت نہ ہونے کے باوجود مسلسل درخت کاٹے جا رہے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ چترال ارندو میں اب بھی کٹے ہوئے درخت پڑے ہیں۔

ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ پہاڑی علاقوں کے یہ قدرتی جنگلات دوبارہ نہیں اگتے اور جس رفتار سے کٹائی جاری ہے اس سے لگتا ہے کہ آئندہ چند برسوں میں ان جنگلات کا بڑا حصہ ختم ہو جائے گا۔

سرکاری افسر کے مطابق ہزارہ میں بااثر لوگ قیمتی جنگلات کو ہوٹلز، گیسٹ ہاؤسز، گھروں اور ٹورازم اسپاٹس کی تعمیر میں استعمال کر رہے ہیں، جبکہ بعض علاقوں میں کان کنی کی اجازت بھی دی گئی ہے۔

سیکریٹری جنگلات کا تبادلہ

رواں ماہ کے آغاز میں سیکریٹری جنگلات و ماحولیات شاہد زمان کو اچانک اسلام آباد رپورٹ کرنے کی ہدایت ملی، جسے محکمہ کے حکام نے ان کی جانب سے غیر قانونی احکامات منسوخ کرنے کی سزا قرار دیا، تاہم صوبائی حکومت کی مداخلت پر یہ تبادلہ روک دیا گیا۔

ذرائع کے مطابق شاہد زمان نے چترال کے علاقے ارندو گول سے 8 ارب روپے مالیت کی لکڑی کی فروخت کے سابقہ احکامات منسوخ کیے۔

اس کے علاوہ ہزارہ ڈویژن کے گزارہ جنگلات کو کان کنی اور جائیداد کی تعمیر کے لیے استعمال کرنے کی اجازت واپس لی۔ جبکہ ایوبیہ نیشنل پارک میں تفریحی پارک کے قیام کی اجازت منسوخ کی۔

مزید بتایا گیا کہ اس سے قبل محکمہ جنگلات نے لوئر چترال کے ارندو گول میں 14 لاکھ مکعب فٹ غیر قانونی لکڑی کی نیلامی کے لیے ایک سمری منظور کی تھی، جس کی مالیت قریباً 8 ارب روپے تھی۔

شاہد زمان نے یہ سمری واپس لے کر کابینہ کو بھیجی اور تجویز دی کہ غیر قانونی لکڑی ضبط کرکے اس کی آمدن یا تو سرکاری خزانے میں جمع کرائی جائے یا پھر ایک خصوصی فنڈ کے طور پر محفوظ کر کے عوامی ترقی پر خرچ کی جائے، اس وقت یہ معاملہ ایک کمیٹی کے سپرد ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ: مردان میں درختوں کی کٹائی کے معاملے پر صوبائی حکومت سے جواب طلب

ذرائع کا کہنا ہے کہ جنگلات کی کٹائی میں شامل بااثر افراد اتنے طاقتور ہیں کہ ایک گریڈ 20 کے افسر کا تبادلہ ایک دن میں ہی کرا دیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ حالیہ سیلاب کے بعد حکومت پر دباؤ ہے، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہی پرانا سلسلہ دوبارہ شروع ہو جائے گا جو عرصے سے چل رہا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp