امریکا کی ایک اپیل کورٹ نے وہ 500 ملین ڈالر (372 ملین پاؤنڈ) کا جرمانہ ختم کر دیا ہے جو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو گزشتہ سال نیویارک کی دیوانی فراڈ ٹرائل میں ادا کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
جج آرتھر اینگورون نے یہ فیصلہ اس بنیاد پر سنایا تھا کہ ٹرمپ نے اپنے ادارے ٹرمپ آرگنائزیشن کی جائیدادوں کی قیمتیں بڑھا چڑھا کر پیش کیں تاکہ آسان شرائط پر قرضے حاصل کیے جا سکیں۔
ابتدا میں جج نے ٹرمپ پر 355 ملین ڈالر کا جرمانہ عائد کیا تھا، لیکن سود کے ساتھ یہ رقم 500 ملین ڈالر سے تجاوز کر گئی۔
اپیل کورٹ کا فیصلہ
جمعرات کو جاری 323 صفحات پر مشتمل فیصلے میں نیویارک سپریم کورٹ کے اپیلٹ ڈویژن کے ججوں نے کہا کہ اگرچہ ٹرمپ دھوکہ دہی کے ذمہ دار ہیں، لیکن نصف ارب ڈالر کے قریب جرمانہ ’حد سے زیادہ‘ ہے اور شاید یہ آئین میں دیے گئے سخت سزاؤں کے خلاف تحفظات کو بھی متاثر کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں ٹرمپ آرگنائزیشن ٹیکس فراڈ اسکیم میں مجرم قرار
جج پیٹر مولٹن نے لکھا کہ اگرچہ نقصان ضرور ہوا، لیکن یہ اتنا تباہ کن نہیں تھا کہ ریاست کو تقریباً نصف ارب ڈالر دیے جائیں۔
ٹرمپ کا ردعمل
ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر فیصلے کو ’مکمل فتح‘ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ میں اس بات کا احترام کرتا ہوں کہ عدالت نے ہمت دکھائی اور اس غیر قانونی اور شرمناک فیصلے کو ختم کیا جو نیویارک میں کاروبار کو نقصان پہنچا رہا تھا۔ یہ ایک سیاسی جادو ٹونا تھا جیسا کسی نے پہلے نہیں دیکھا۔
اٹارنی جنرل کا مؤقف
نیویارک کے اٹارنی جنرل کے دفتر، جس نے ٹرمپ کے خلاف مقدمہ دائر کیا تھا، نے بھی اسے اپنی کامیابی قرار دیا کیونکہ عدالت نے ٹرمپ پر دھوکہ دہی کا الزام برقرار رکھا اور دیگر غیر مالیاتی سزائیں ختم نہیں کیں۔
دفتر نے کہا کہ عدالت نے یہ تسلیم کیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ، ان کی کمپنی اور ان کے 2 بچے دھوکہ دہی کے مرتکب پائے گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر ساڑھے 35 کروڑ ڈالر جرمانہ
اٹارنی جنرل کے دفتر نے اعلان کیا ہے کہ وہ جرمانے کے خاتمے کے فیصلے کو ریاست کی سب سے بڑی عدالت یعنی کورٹ آف اپیل میں چیلنج کرے گا۔
دیگر پابندیاں برقرار
جج اینگورون نے اپنے پہلے فیصلے میں ٹرمپ کو 3 سال تک نیویارک میں کسی بھی کمپنی کے ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دینے یا بینکوں سے قرض لینے پر بھی پابندی لگائی تھی۔ جمعرات کے فیصلے میں یہ اور دیگر غیر مالیاتی پابندیاں برقرار رکھی گئیں۔
ججوں کی تقسیم
فیصلے میں شامل 5 ججوں میں اختلاف بھی پایا گیا۔ بعض ججوں نے کہا کہ اٹارنی جنرل لیٹیشیا جیمز کے پاس یہ مقدمہ دائر کرنے کا مکمل اختیار تھا۔ تاہم ایک جج کا کہنا تھا کہ مقدمہ خارج کر دینا چاہیے تھا۔ 2 ججوں نے کہا کہ محدود دائرے میں دوبارہ مقدمہ چلایا جانا چاہیے۔ تاہم ان دونوں نے بھی صرف ’حتمی نتیجہ اخذ کرنے‘ کے لیے جرمانہ ختم کرنے کے فیصلے سے اتفاق کیا۔
قانونی ماہرین کی رائے
ماہرین کے مطابق یہ فیصلہ بظاہر معاملہ نیویارک کورٹ آف اپیلز کی جانب دھکیل رہا ہے، جہاں اصل قانونی نتیجہ طے کیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیے ہیلری کلنٹن کیخلاف غیرسنجیدہ مقدمہ کرنے پر ٹرمپ پر لاکھوں ڈالر جرمانہ
یونیورسٹی آف مشی گن کے پروفیسر ول تھامس نے کہا کہ یہ ایسا ہے جیسے معاملہ وقتی طور پر ٹال دیا گیا ہو۔ اصل فیصلے کے لیے ابھی مزید انتظار کرنا ہوگا۔
مقدمے کی تفصیل
ستمبر 2023 میں جج اینگورون نے فیصلہ دیا تھا کہ ٹرمپ نے اپنے اثاثوں کی مالیت غلط طور پر سینکڑوں ملین ڈالر زیادہ ظاہر کی۔ ایک مثال میں کہا گیا کہ ٹرمپ نے اپنے مشہور ٹرمپ ٹاور پینٹ ہاؤس کے رقبے کو اصل سائز سے تقریباً 3 گنا زیادہ ظاہر کیا تھا۔ ٹرمپ نے اس مقدمے کو سیاسی انتقام قرار دیا، کیونکہ اٹارنی جنرل لیٹیشیا جیمز ڈیموکریٹ ہیں۔