’یار یہ مجھے ریسٹ ہاؤس کیوں بھجوا رہے ہیں‘ آج سپریم کورٹ میں کب کیا ہوا

جمعرات 11 مئی 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ کی جانب سے عمران خان کو پولیس لائنز ریسٹ ہاؤس میں رکھے جانے کے فیصلے کے خلاف پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بہت ناخوش نظر آئے۔ چیف جسٹس، جسٹس عمر عطاء بندیال کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا بنی گالا میں میرا گھر ہے اور وہاں سکیورٹی کا پورا انتظام ہے لیکن چیف جسٹس مصر تھے کہ آپ کی حفاظت اب پولیس کی ذمے داری ہے۔

ہم نہیں چاہتے کہ آپ کو کچھ ہو، چیف جسٹس

چیف جسٹس نے عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ اب عدالتی تحویل میں ہیں، ہم نہیں چاہتے کہ آپ کو کچھ ہو، اس پر عمران خان بولے کہ آپ مجھے بنی گالا رہنے دیں وہاں بھی آپ کی تحویل سے برکت آ جائے گی۔

عمران خان کی ناگواری

سماعت کے بعد جب عمران خان واپس سپریم کورٹ میں واپس اپنی کرسی پر براجمان ہوئے تو انہیں ان کے وکلا نے گھیرے میں لے لیا اور پھر کل کی پیشی پر مشاورت شروع ہو گئی۔ لیکن کرسی پر بیٹھتے ہی سب سے پہلے عمران خان نے بڑی ناگواری سے کہا ’یار یہ مجھے ریسٹ ہاؤس کیوں بھجوا رہے ہیں۔

میں تمہیں بہت مس کروں گا

سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے خلاف العزیزیہ کرپشن ریفرنس کا تفتیشی افسر عمران ڈوگر تھا۔ عمران خان کے دو دن نیب کی تحویل میں رہنے کے بعد وہ ان کے سیکیورٹی اسٹاف میں رہا، لیکن سپریم کورٹ نے آج عمران خان کی سکیورٹی کی ذمے داری جب اسلام آباد پولیس کے حوالے کی تو عمران ڈوگر عمران خان سے مخاطب ہو کر بولا سر اب آپ ہماری تحویل سے جا رہے ہیں، جس پر عمران خان بولے، میں تمہیں بہت مس کروں گا۔

عمران خان خود کو امن پسند خیال کرتے ہیں

سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے تینوں ججز نے عمران خان کی توجہ اس جانب مبذول کروائی کہ ان کی وجہ سے ملک میں امن و امان کی صورتحال کئی بار خراب ہو چکی ہے اور ان کو اپنے بیانیے پر غور کرنا چاہیے، لیکن سپریم کورٹ میں بھی عمران خان اپنی بات پہ مصر نظر آئے کہ میری وجہ سے نقص امن کی صورتحال پیدا نہیں ہوتی۔ انہوں نے اپنی ستائیس سالہ سیاسی زندگی کو پر امن جدوجہد قرار دیا اور کہا کہ وہ تو بس انتخابات چاہتے ہیں۔

ساری سیاسی جدوجہد ہی امن کے لیے

سماعت کے بعد اپنے وکلاء کے جھرمٹ میں ایک بار پھر سے انہوں نے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا مجھے کہتے ہیں کہ میری وجہ سے نقص امن ہوا، میری تو ساری سیاسی جدوجہد ہی امن کے لیے تھی۔

آصف علی زرداری کو کریڈٹ جاتا ہے

ایک موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے سپریم کورٹ بینچ کے رکن جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سیاست میں بہت سے لوگوں کے ساتھ بہت کچھ ہوا ہے لیکن کسی نے اس طرح سے ردعمل نہیں دیا۔

انہوں نے کہا کہ بھٹو صاحب شہید ہوئے، محترمہ بے نظیر بھٹو شہید ہوئیں اور اس کے بعد شدید ردعمل آیا لیکن آپ ان کے شوہر آصف علی زرداری کو کریڈٹ دیں جن کے ایک بیان نے ملک میں امن بحال کر دیا۔

اس پر عمران خان نے کہا کہ جس طریقے سے وہ مجھے دہشت گردوں کی طرح سے پکڑ کر لے گئے، اس ویڈیو کو دیکھ کر لوگوں میں اشتعال پھیلا مجھے کچھ پتا نہیں دو دنوں میں کیا ہوا۔میرے پاس ٹی وی، اخبار، فون کچھ نہیں تھا اور میں بالکل اندھے بہروں کی طرح محسوس کررہا تھا۔

خواجہ حارث بالکل ایک غیر سیاسی آدمی ہے

عمران خان نے کہا کہ میں نیب والوں سے پوچھتا تھا یہ لوگ مجھے کچھ بتاتے نہیں تھے کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے۔ سماعت کے بعد اپنے وکیل خواجہ حارث کی قانونی مہارت کی انہوں نے بہت تعریف کی اور کہا کہ کیا کیس لڑا ہے انہوں نے ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہا کہ خواجہ حارث بالکل ایک غیر سیاسی آدمی ہے اور وہ بس یہی کہتا تھا کہ کچھ احتجاج وغیرہ چل رہا ہے۔

کیا عمران خان کو رہا کر دیا گیا ہے؟

سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین کی احاطہ عدالت سے گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ آئندہ کے لیے بھی یہ اصول طے کر رہے ہیں کہ لوگوں کو احاطہ عدالت سے گرفتار نہیں کیا جاسکتا۔

عمران خان کے وکلاء نے عدالت کو بتایا کہ جس مقدمے میں عمران خان کو گرفتار کیا گیا اس سے متعلق درخواست ضمانت دائر کرنے والے تھے کہ گرفتاری عمل میں لائی گئی۔ اس پر سپریم کورٹ نے عمران خان کواسلام پولیس کی تحویل میں دیتے ہوئے کہا کہ اس چیز کو وہیں سے دوبارہ شروع کیا جائے جہاں سے سلسلہ ٹوٹا تھا۔

گھڑی کی سوئیوں کی واپسی

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم گھڑی کی سوئیوں کو واپس اسی مقام پر لے جانا چاہتے ہیں جہاں پہ تھیں۔ عمران خان وہاں اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست ضمانت داخل کریں گے اور اس کے بعد جو اسلام آباد ہائی کورٹ فیصلہ کرے۔

ایکسٹرا آرڈینری ریلیف

عمران خان کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے جسٹس اطہر من اللہ نے آبزرویشن دی کہ یہ ہم آپ کو ایکسٹرا آرڈینری ریلیف دے رہے ہیں۔ تینوں ججز نے عمران خان سے کہا کہ وہ اپنے کارکنان کو پرامن رہنے کا پیغام دیں۔

ڈائیلاگ واحد راستہ

ایک موقعے پر جسٹس اطہر من اللہ نے عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں لیڈر نہیں اسٹیٹس مین چاہییں۔ ہمیں اپنے مفادات سے بالاتر ہو کر سوچنا ہو گا۔ چیف جسٹس نے عمران خان کو مشورہ دیا کہ آپ اپنے سیاسی مخالفین سے مکالمہ کریں۔ بھلے وہ آپ کو پسند ہوں یا نہیں لیکن ملک کو اس صورتحال سے نکالنے کا یہی واحد راستہ ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ تعاون کریں اور مکالمہ کریں۔ دونوں طرف اتنا سخت بیانیہ ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے میرے میڈیا کے ایک دوست کے توسط سے دھمکی دی گئی کہ آپ کا گھر بھی جلایا جا سکتا ہے۔

لیڈر کبھی نہیں کہہ سکتا کہ اپنے کارکنوں کے لیے ذمے دار نہیں

جسٹس اطہر من اللہ نے عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ایک لیڈر کبھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ اپنے کارکنوں کے رویے کا ذمے دار نہیں۔ انہوں نے عمران خان کو خود احتسابی کا مشورہ بھی دیا۔ اس پر عمران خان بولے سر آئی ایم سوری لیکن مجھے پتا ہی نہیں کہ کیا ہوا

عمران خان کی قانونی ٹیم کی قابلیت پر سوال

سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے اس بات پر عمران خان سے سوالات کیے کہ نیب نے جب 2 مارچ کو انہیں کال اپ نوٹس جاری کیا تو انہوں نے اس کا جواب کیوں نہیں دیا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اگر آپ کے پاس جواب تھا تو آپ نیب کے سامنے پیش کیوں نہیں ہوئے۔

اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ صورتحال اس لئے یہاں تک پہنچی کیوں کہ آپ کو درست قانونی مشورے نہیں دیے گئے۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر آپ کی قانونی ٹیم نے بروقت نوٹس لیا ہوتا تو آپ کے گرفتاری وارنٹس نہ نکلتے۔

عمران خان دور حکومت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ذکر

ایک موقعے پر جب عمران خان عدالت کے سامنے یہ بیان کر رہے تھے کہ کس طرح ایک کمانڈو ایکشن کے ذریعے ان کو دہشت گردوں کی طرح اٹھایا گیا اور ان کے سر پہ کوئی چیز ماری گئی تو اس پر جسٹس اطہر من اللہ بولے آپ تو خوش قسمت ہیں۔ یہاں لوگوں کے ساتھ بہت برا سلوک ہوا ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے نام لیے بغیر عمران خان کے دور حکومت میں انسانی حقوق کی صورتحال کے بارے میں اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ میں اسلام آباد ہائیکورٹ میں چار سال رہا ہوں۔ میرے دور میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بے شمار واقعات ہوئے لیکن ہم اس طرف نہیں جاتے۔

انہوں نے عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آپ تو اس (نیب ترمیمی قانون) سے فائدہ اٹھا رہے ہیں جس کو آپ نے عدالت میں چیلنج کر رکھا ہے۔

ورکرز احاطہ عدالت میں نہیں آئیں گے

سپریم کورٹ نے کل عمران خان کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں ضمانت کی درخواستیں دائر کرنے کی اجازت دی اور ساتھ ہی کہا کہ آپ عدالت کو یقین دلائیں کہ آپ کے ورکرز احاطہ عدالت میں نہیں آئیں گے، اس پر عمران خان نے پہلے کہا کہ وہ کوشش کریں گے پھر کہا کہ وہ یقین دلاتے ہیں کہ نہیں آئیں گے

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp